
غزہ میں تباہی اور شہریوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جانا، اور جس استثنیٰ کے ساتھ یہ مظالم جاری ہیں، نام نہاد عالمی برادری کی اخلاقی پستی کو بے نقاب کر رہے ہیں۔ دنیا دیکھتی ہے، بحث کرتی ہے اور مذمت کرتی ہے، لیکن اس قتل عام کو روکنے کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں کرتی۔ اس بربریت کے مرکز میں ایک ناقابل تردید سچائی ہے کہ”جنگ ایک کاروبار ہے“(War Economy)۔ صرف اسٹریٹجک غلبہ کے لیے نہیں لڑا جاتا بلکہ ایک ٹریلین ڈالر کی صنعت کو برقرار رکھنے کے لیے جنگیں کی جاتی ہیں۔ فلسطینیوں کا خون اور جیسے افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور یوکرین میں بے شمار متاثرین کا اس مسلسل جنگی معیشت(War Economy) کو مسلسل ہوا دیتا ہے۔
غزہ پر گرایا گیا ہر بم، ہر میزائل فائر، ہر ڈرون حملہ، اور تعینات ہر ٹینک ہتھیاروں کے مینوفیکچررز اور ان کے حامیوں کے لیے اسٹاک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور منافع پیدا کرتا ہے۔ فلسطین پر قبضہ محض ایک سیاسی منصوبہ نہیں ہے۔ یہ ایک معاشی انٹرپرائز ہے جہاں دفاعی ٹھیکیدار، ہتھیاروں کے ڈیلرز، اور جنگی منافع خور مغربی فوجی امداد کے لامتناہی بہاؤ سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
سٹاک ہوم انٹر نیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (SIPRI) کے مطابق، 2024 میں عالمی دفاعی اخراجات 2.46 ٹریلین ڈالر تک پہنچ گئے، جو کہ 2023 میں 2.24 ٹریلین ڈالر سے نمایاں اضافہ دکھاتے ہیں۔ اسرائیل نے 2024 میں 46.6 بلین ڈالر خرچ کیے، اور اس سال اس کے دفاعی بجٹ میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ مشرق وسطیٰ امریکی ہتھیاروں کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ ہتھیاروں پر خرچ ہونے والا ہر ڈالر خوراک، صحت، تعلیم اور انسانی وقار سے چوری شدہ ڈالر ہے۔
جنگی معیشت (War Economy) سے مراد وہ معاشی ڈھانچہ ہے جس میں ریاست اپنی اقتصادی سرگرمیوں کو جنگی مقاصد کے لیے منظم کرتی ہے۔ اس میں صنعتی پیداوار کا رخ اسلحہ، گولہ بارود، اور فوجی سازوسامان کی تیاری کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔ عام شہریوں کی ضروریات کو ثانوی حیثیت دی جاتی ہے، اور بیشتر وسائل فوجی ضروریات کے لیے مختص کیے جاتے ہیں۔
جنگی معیشت(War Economy) کے اثرات
معاشی ترقی کی سست روی: دفاعی اخراجات میں اضافے کی وجہ سے دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کم ہو جاتی ہے۔
مہنگائی اور قلت: وسائل کی کمی اور طلب میں اضافے کی وجہ سے مہنگائی بڑھتی ہے اور ضروری اشیاء کی قلت پیدا ہوتی ہے۔
سماجی مسائل: بیروزگاری، غربت، اور عدم مساوات میں اضافہ ہوتا ہے، جس سے معاشرتی بے چینی جنم لیتی ہے
پاکستان اور جنگی معیشت(War Economy)
پاکستان اور بھارت نے مختلف ادوار میں جنگی معیشت کا تجربہ کیا ہے، خاص طور پر 1965 اور 1971 کی جنگوں کے دوران۔ ان ادوار میں معیشت کا بڑا حصہ دفاعی ضروریات کے لیے مختص کیا گیا، جس سے صنعتی اور زرعی شعبے متاثر ہوئے۔ اس کے علاوہ، افغان جنگ کے دوران پاکستان نے جنگی معیشت کے اثرات محسوس کیے، جہاں دفاعی اخراجات میں اضافہ ہوا اور معاشی ترقی کی رفتار سست پڑ گئی۔
واپس کریں