دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
معاشی عدم استحکام اور تنازعات سے بیروزگاری بڑھنے کا خطرہ
No image معاشی عدم استحکام، تنازعات اور موسمیاتی دھچکوں کے باعث عالمگیر تحفظ کمزور پڑ رہا ہے اور دنیا بھر میں اربوں لوگوں کو نوکریاں چھن جانے یا روزگار کی تلاش میں مشکلات کا خوف لاحق ہے۔
اقوام متحدہ کے شعبہ معاشی و سماجی امور کی جاری کردہ ‘ورلڈ سوشل رپورٹ 2025’ مین بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں مستقبل کے حوالے سے غیریقینی کیفیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگرچہ اب عمر کا دورانیہ بڑھ گیا ہے اور لوگ پہلے سے زیادہ تعلیم یافتہ اور باہم مربوط ہیں لیکن یہ خیال عام ہے کہ 50 برس قبل حالات زندگی آج سے کہیں بہتر تھے۔
رپورٹ کے مطابق، مطمئن زندگی کے حوالے سے لیے گئے جائزے میں تقریباً 60 فیصد لوگوں نے بتایا کہ انہیں اچھے مواقع کے لیے جدوجہد کرنا پڑتی ہے جبکہ 12 فیصد کا کہنا تھا کہ انہیں تکالیف کا سامنا ہے۔
معاشی عدم استحکام دنیا کے غریب ترین علاقوں تک ہی محدود نہیں بلکہ بہتر آمدنی والے ممالک میں بھی روزگار کے حوالے سے عدم تحفظ، مختصر مدتی نوکریوں یا فری لانس کام اور ڈیجیٹل تبدیلی جیسے عوامل اس رجحان کو تقویت دے رہے ہیں۔ اگرچہ غیررسمی کام میں کچھ آسانیاں بھی ہوتی ہیں لیکن یہ کارکنوں کو نہ تو خاطرخواہ معاشی تحفظ مہیا کرتا ہے اور نہ ہی اس میں انہیں رسمی شعبے کے محنت کشوں جیسے حقوق حاصل ہوتے ہیں۔
کم اور متوسط آمدنی والے بہت سے ممالک میں ایسی نوکریاں عام ہیں جہاں کارکنوں کو کوئی معاشی و سماجی تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔ وہ کم آمدنی پر کام کرتے ہیں اور عدم استحکام کا شکار رہتے ہیں۔ ان میں جو لوگ رسمی شعبے تک رسائی میں کامیاب رہیں انہیں دوبارہ غیررسمی شعبے میں واپسی کا خدشہ رہتا ہے جو خراب معاشی صورتحال میں اور بھی بڑھ جاتا ہے۔
دنیا میں 2.8 ارب لوگ روزانہ 6.85 ڈالر سے کم آمدنی کماتے ہیں اور معمولی سے معاشی دھچکے بھی انہیں شدید غربت میں دھکیل دیتے ہیں جس سے وہ مستقبل بنیاد پر چھٹکارا نہیں پا سکتے۔
موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات اور بدترین صورت اختیار کرتے تنازعات نے اس صورتحال کو اور بھی گمبھیر بنا دیا ہے اور اس سے بالخصوص ترقی پذیر ممالک میں مقامی معیشتوں کو نقصان ہو رہا ہے اور عدم مساوات شدت اختیار کر رہی ہے۔
اعتماد کا خاتمہ
مالیاتی دباؤ بڑھنے اور استحکام ختم ہونے کا نتیجہ اداروں پر عوام اور بالخصوص نوجوانوں کا اعتماد مجروح ہونے کی صورت میں نکلتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی (57 فیصد) کا حکومتوں پر اعتماد انتہائی کم ہے جبکہ 21ویں صدی میں پیدا ہونے والوں کا اعتماد اوسط مجموعی سطح سے بھی بہت نیچے ہے۔ ان حالات میں شہریوں کے ساتھ تعاون اور سیاسی استحکام کے حوالے سے خدشات جنم لیتے ہیں۔
ان حالات میں لوگوں کے باہمی اعتماد میں بھی کمی آ رہی ہے۔ جن ممالک کے حوالے سے معلومات دستیاب ہیں ان میں 30 فیصد سے بھی کم لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دوسروں پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ اس سے سماجی ہم آہنگی میں کمی کا اندازہ ہوتا ہے اور یہ صورتحال بہتری کے لیے اجتماعی اقدامات کا تقاضا کرتی ہے۔
ٹیکنالوجی سے لاحق مسائل
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے غلط اور گمراہ کن اطلاعات تیزی سے پھیل رہی ہیں جس سے معاشروں میں تقسیم اور بداعتمادی کو ہوا مل رہی ہے۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارم اور سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے دھوکہ اور نفرت پر مبنی اظہار فروغ پا رہا ہے اور تنازعات بڑھ رہے ہیں۔
گمراہ کن تصورات کا شکار ہونے والے سوشل میڈیا کے صارفین عموماً ایسے ماحول میں پھنس جاتے ہں جہاں انہیں ایسی خبریں اور آرا سننے کو ملتی ہیں جو ان کے خیالات کے مطابق ہوتی ہیں اور انہیں مزید کٹر بنا دیتی ہیں۔ سوشل میڈیا کے الگورتھم ایسے ماحول کی تخلیق میں سہولت دیتے ہوئے وسیع پیمانے پرلوگوں کو مزید شدت کا حامل مواد پیش کرتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان نقصان دہ رجحانات کو تبدیل کرنے کے لیے پالیسی سازی میں بنیادی تبدیلی لانا ہو گی جس کی بنیاد مساوات، معاشی تحفظ اور یکجہتی پر ہو۔
اس میں حکومتوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ تعلیم، صحت، ہاؤسنگ اور سماجی تحفظ کے مضبوط نظام جیسی معیاری سرکاری خدمات تک رسائی کو وسعت دیں۔ اس طرح استحکام اور مشمولہ ترقی کو فروغ ملے گا۔ علاوہ ازیں، دولت کا چند ہاتھوں میں ارتکاز روکنے کے اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔
انڈیا میں سائیکل رکشہ اب بھی سورای کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نومبر میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں سماجی ترقی پر دوسری عالمی کانفرنس کے انعقاد سے قبل عالمی قیادت کو تبدیلی کی جانب موثر اقدامات اٹھانا ہوں گے۔
رپورٹ کے دیباچے میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے اتحاد اور فیصلہ کن اقدام کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کو درپیش مسائل اجتماعی اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں۔ ان حالات میں اکٹھے ہو کر سبھی کے لیے ایسی دنیا کی تعمیر کے عزم کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے جو پہلے سے زیادہ منصفانہ، محفوظ، مستحکم اور متحد ہو۔
وسائل کی شدید قلت کے باعث پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کی برونڈی میں امدادی سرگرمیاں خاصی متاثر ہوئی ہے۔
وسائل کی کمی سے یو این امدادی
واپس کریں