تبدیلی کا حقیقی مفہوم اور اس کی حکمت عملی ۔ آزاد رائے پوری

تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ بنیاد کو سب سے پہلے ٹھیک کیا جائے، یہ نہیں کہ خستہ حال عمارت کے اوپر مزید نئی اور خوش نما عمارت بنانے کی کوشش کی جائے ۔ آج جس سٹم کی بنیاد جھوٹ، بددیانتی پر اور انگریز سامراج کے تسلط اور اُس کے مفادات کی اساس پر ہے، اُس سے برأت کرنے کا اعلان کرنا ضروری ہے ۔ آج ہم اس دھرتی پر انگریز دور سے پہلے کے اسلامی مسلم اور رواداری کے نظام کی بنیاد پر اپنی بنیاد قائم کریں اور جائزہ لیں کہ اس وقت کے اولیاء اللہ نے کیا کام کیا تھا ؟ حضرت داتا گنج بخش ، شاہ عبد اللطیف بھٹائی وغیرہ وغیرہ حریت پسندوں کی کیا تعلیمات تھیں؟ جو تاریخ کے اندر اس خطے کی اجتماعیت کو برقرار رکھنے والے ہیں۔ آج ہم انگریز کے بنائے ہوئے دوسو سالہ نو آبادیاتی دور کی بنیاد کو کھیڑ کر نہ پھینکیں اور اپنے ڈانڈے تاریخ کے اس سے پہلے کے دور کی رواداری، برداشت، انسان دوستی، آزادی اور حریت کی اساس پر جب تک اپنا رشتہ وہاں تک نہ جوڑیں ، پھر کہیں گے جی کہ تبدیلی آجائے ، آزادی حاصل ہو جائے، معاشرہ بن جائے، ایسا نہیں ہو سکتا، کیوں کہ بنیاد ہی غلط ہے۔
بڑی بنیادی سی بات ہے کہ جب تک انگریز کے اُس دو سو سالہ دور کی غلامی کے اثرات اور اُس سامراج سے برأت کا اعلان نہیں کرتے ، اور جو آزادی اور حریت کا اسلام کا ہزار سالہ دور اس بر عظیم پر حکمرانی کا ہے، اور خاص طور پر ریاست مدینہ میں جو رسول اللہ علیہ انسانیت کے لیے رہنمائی اور ہدایت دے رہے ہیں، ان کو سامنے نہیں رکھتے، نہ آزادی ہے، نہ انقلاب ہے، نہ انصاف ہے، نہ تبدیلی ہے، نہ اسلام ۔ قرآن کے خلاف کوئی بات کر کے اسلام کیسے آجاتا ہے؟ حضور کے فرمان کے خلاف بات کر کے اسلام کیسے آجاتا ہے؟
مسلمان سمجھ دار ہوتا ہے، تبین، تحقق اور تثبت کے ساتھ حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کے بعد فیصلہ کرتا ہے کہ اس خبر کے پیچھے یہ ڈوری کس نے ہلائی ہے؟ کہاں سے یہ بات آئی ہے؟ کیوں یہ بات یہاں پیدا ہوئی ہے؟ اور جو اس کو نہیں کرتا اور اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کرتا ہے، یہ اللہ کی بات نہیں ہے، ضرور کسی شیطان کی ہے، اور شیطان دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک شیاطین الانس اور دوسرے شیاطین الجن ۔
اس لیے آج سیاسی شعور کی ضرورت ہے ۔ ظالمانہ نظام کے ہاتھوں استعمال ہونے اور اس سسٹم کے آلہ کار ہونے سے بچنا بہت ضروری ہے۔ قرآن نے کہا ہے کہ اچھی طرح تحقیق و تفتیش کرو، کھوج لگاؤ تحقیقی ذہن ہونا چاہیے۔ جستجو کا ذہن ہونا چاہیے۔ شعور کا ذہن ہونا چاہیے ۔ ٹھنڈے دل و دماغ سے ثابت قدمی کے ساتھ غور و فکر کرو۔ جلد بازی سے بچو۔ یہ نہیں کہ ایک دم خبر آئی اور بھڑک اُٹھے۔ خبر آئی کہ ہنگامہ ہوا، ڈنڈے لے کر نکل آؤ، توڑ پھوڑ کرو، آگ لگاؤ، کیا اس سے انقلاب آتا ہے؟ عقل سے کام لینا چاہیے۔
واپس کریں