احتشام الحق شامی۔ حماس کے سرکردہ لیڈر اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر ایران میں انتقام کی علامت سرخ پرچم لہرا دیاگیا۔یاد رہے کہ اس سے قبل 2020 میں عراق میں ایرانی قدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کے امریکی حملے میں قتل کے بعد بھی سرخ پرچم لہرایا گیا تھا لیکن ایران کی جانب سے اسرائیل کے خلاف کسی بھی قسم کی انتقامی کاروائی نہیں کی گئی اور سرخ پرچم لہراتا رہ گیا۔
ابھی چند ماہ قبل ایران نے سینکڑوں کی تعداد میں اسرائیل کی جانب اپنے جنگی ڈرون اڑائے لیکن ایک بھی ایرانی ڈران اسرائیل کی حدود میں داخل نہیں ہو سکا یعنی کہ اسرائیل کا ایک بال بھی بھیگا نہیں ہوا۔جبکہ اس سے قبل حماس نے اسرائیل پر راکٹ داغے تھے جس کے بعد سے اب تک اسرائیل کی بمباری سے چالیس ہزار سے زائد فسلطینی شہری شہید ہو چکے ہیں،شہادتوں کا سلسلہ جاری ہے، اس وقت بھی غزہ کا محاصرہ جاری ہے، ہزاروں فلسطینی خوراک اور پانی کو منتظر ہیں۔ باالفاظِ دیگر فلسطینیوں کا شدید قحط کا سامنا ہے۔
اب یہاں عرض کرنے کا مقصد یہی ہے کہ خود کشی کرنے اور دشمن پر حملہ کر کے اسے شکست دینا دو مختلف چیزیں ہیں۔اگر آپ کے پاس دشمن پر کامیاب حملہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے تو یاد رکھئے گا کہ حملے کی صورت میں اور پھر اس کے نتیجے میں ریاست کے عام شہری دشمن کے غیض و غصب کا نشانہ بنیں گے اور اگر آپ کے پاس دشمن پر کامیاب حملہ کرنے کی صلاحیت ہے تو پھر اس صورت میں آپ کا دشمن پر حملہ کرنے کا فیصلہ درست اقدام ثابت ہو گا۔
ہمارا دین بھی یہی سکھاتا ہے کہ دشمن کے مقابلے میں اپنے گھوڑے تیار رکھو اور حکمتِ عملی اور تدبر سے کام لو۔ یعنی جدید جنگی ٹیکنالوجی کا حصول۔ سرخ پرچم لہرانے اور بیان بازی کرنے کے بجائے اگر ایران اسرائیل کے خلاف کسی قسم کے ٹھوس اقدامت اٹھائے تو سرخ پرچم کی بات تب سمجھ میں آئے گی۔
لیبیا،عراق،شام اور بیروت کے بعد لگتا ہے اب ایران کی باری ہے اور اس کے بعد ممکنہ طور پر شاید ہمارا نمبر ہے۔
واپس کریں