دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
انسان کا وجود، خدا کے وجود کا ثبوت۔مولانا وحید الدین خان
No image وسیع کائنات میں صرف انسان ہے جو خدا کے وجود کا انکار کرتا ہے۔ حالانکہ انسان کا خود اپنا وجود، خدا کے وجود کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ اگر انسان جیسی ایک ہستی یہاں موجود ہے تو خدا بھی یقینی طور پر موجود ہے۔ انسان کے اندر وہ تمام صفتیں ناقص طور موجود ہیں جو خدا کے اندر کامل طور پر موجود ہیں۔ اگر ناقص ہستی کا وجود ہے تو کامل ہستی کا بھی یقینی طور پر وجود ہے۔ ایک کو ماننے کے بعد دوسرے کو نہ ماننا ایک ایسا منطقی تضاد ہے جس کا تحمل کوئی صاحب عقل نہیں کرسکتا۔
ڈکارٹ (Rene Descartes) مشہور فرنچ فلسفی ہے وہ 1596 میں پیدا ہوا اور 1650 میں اس کی وفات ہوئی۔ اس کے سامنے یہ سوال تھا کہ انسان اگر موجود ہے تو اس کی موجودگی کا عقلی ثبوت کیا ہے۔طویل غوروفکرکے بعد اس نے اس سوال کا جواب ان الفاظ میں دیا ہے۔ ’’میں سوچتا ہوں اس لئے میں ہوں‘‘۔ ڈیکارٹ کا یہ جواب منطقی اعتبار سے ایک محکم جواب ہے۔ مگر یہ منطق جس سے انسان کا وجود ثابت ہوتا ہے، وہ اس سے بھی زیادہ بڑی بات کو ثابت کر رہی ہے، اور وہ ہے خدا کے وجود کا عقلی ثبوت۔ اس منطقی اصول کی روشنی میں یہ کہنا بالکل درست ہو گا۔۔۔۔ کہ سوچ کا وجود ہے، اس لئے خدا کا بھی وجود ہے۔
سوچ ایک مجرد چیز ہے۔ جو لوگ خدا کا انکار کرتے ہیں، وہ اسی لیے خدا کا انکار کرتے ہیں کہ خدا انہیں ایک مجرد تصور معلوم ہوتا ہے، اور مجرد تصور کی موجودگی ان کے لیے ناقابل فہم ہے، یعنی ایک ایسی چیز کو ماننا جس کا کوئی مادی وجود نہ ہو۔ لیکن ہر انسان سوچنے والی مخلوق ہے۔ خود اپنے تجربے کی بنیاد پر ہر آدمی سوچ کے وجود کو مانتا ہے۔ حالانکہ سوچ مکمل طور پر ایک مجرد تصور ہے، یعنی ایک ایسی چیز جس کا کوئی مادی وجود نہیں۔
اب اگر انسان ایک قسم کے مجرد تصور کے وجود کو مانتا ہے تو اس پر لازم آ جاتا ہے کہ وہ دوسری قسم کے مجرد تصور کے وجود کو بھی تسلیم کرے۔ یہ بلاشبہ خدا کے وجود کا ایک ایسا ثبوت ہے جس کا تجربہ ہر آدمی کرتا ہے اور جس کی صحت کو ہر آدمی بلااختلاف مانتا ہے۔ اگر سوچ کے وجود کا انکار کر دیا جائے تو اس کے بعد یقینی طور پر انسان کے وجود کا اور خود اپنے وجود کا انکار کرنا پڑے گا۔ کوئی بھی آدمی اپنے وجود کا انکار نہیں کر سکتا، اسی لیے کسی بھی آدمی کے لیے منطقی طور پر یہ ممکن نہیں کہ وہ خدا کے وجود کا انکار کرے۔
خدا کا غیر مرئی (invisible) ہونا، اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ خدا کے وجود کا انکار کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ غیر مرئی ہونے کی بنا پر خدا کا انکار کرنا، ماڈرن سائنس کے زمانے میں ایک خلاف زمانہ استدلال ہے۔ اس لیے کہ آئن سٹائن کے زمانے میں جب ایٹم ٹوٹ گیا اور علم کا دریا عالم صغیر (micro world) تک پہنچ گیا تو اس کے بعد معلوم ہوا کہ یہاں ہر چیز غیر مرئی ہے۔ پہلے جو چیزیں مرئی سمجھی جاتی تھیں اب وہ سب کی سب غیر مرئی ہوگئیں۔ ایسی حالت میں عدم رویت کی بنیاد پر خدا کے وجود کا انکار کرنا، ایک غیر علمی موقف بن چکا ہے۔
واپس کریں