عرفان اطہر قاضی
ہم آپ کو مرحلہ وارر سازش کرنا سکھا رہے ہیں اور کوشش یہی ہے کہ آپ جلد از جلد سازش کرنے کا گُر سیکھ جائیں۔ گزشتہ کالم کے اختتام پر افغان طالبان انتظامیہ کو فوری تسلیم کرنے کے پیچھے وزیراعظم خان کے فلسفے کی حقیقت کا تذکرہ کیا تھا لیکن خانِ اعظم جس تیز رفتاری سے ہمیں سازش کرنے کے طور طریقے سکھا رہے ہیں، قلم کی رفتار اسے چُھونے سے قاصر ہے۔ ہم جو بات مرحلہ وار سازش کے اختتام پر سمجھانا چاہتے تھے خانِ اعظم نے وہ سبق ہمیں ابھی سے ازبر کرا دیا ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ خان عوامی شہرت کی ایسی بلندیوں کو چُھو رہے ہیں کہ سیلاب کی تباہ کاریوں ، مالی حالات کی تنگی کے باوجود عوام کی اکثریت انہیںدیکھنا، سننا اور ان کی ہربات پر سردھننا اور تالیاں پیٹنا پسند کرتی ہے۔ ایسا ہم نے سقوطِ ڈھاکہ سے قبل مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمٰن کے جلسوں میں بھی دیکھا لیکن یہاں صورتِ حال یہ ہے کہ خان طاقت کے اس نشے میں سب کا ایک ہی ہلے میں صفایا کر دینا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے جتنا دباؤ گے میں اس سے زیادہ طاقت سے تم پر حملہ آور ہوں گا اور یہی کارنرڈ ٹائیگر خطر ناک ہو جائے گا۔ خان ایکسپوز ہورہے ہیں۔
انسان کی اصل حقیقت کا پتہ ہمیشہ غصے میں ہی چلتا ہے اور وہ ،وہ بات کہہ جاتا ہے جسے چھپانا چاہیے ہوتا ہے ۔ شہباز گل نے پاک فوج کے خلاف جو زہر اُگل کر گُل کھلایا تھا، خانِ اعظم نے فیصل آباد جلسے میں نئے آرمی چیف کی تقرری پر میزائل داغ کر نہ صرف سوچ پر مہر ثبت کردی ہے بلکہ وہ ڈاکٹرائن بنانے والے ”تمام ڈاکٹروں“ کے لئے بھی ایک ٹیسٹ کیس بن چکے ہیںکہ قیام پاکستان کے وقت پاکستان کی آبادی 40 کروڑ ظاہر کرنے والے کی ذہنی حالت اورتسلسل کے ساتھ غیر حقیقی اعلانات، الزامات اور خوابوں کی دنیا میں رہنے والے، اپنے دور اقتدار میں کبھی چین کا نظام، کبھی انقلابِ ایران، کبھی ترکیہ کا طرزِ حکومت اور آخر میں ملک کو دیوالیہ کرکے فرار ہونے والے سری لنکن صدر، وزیراعظم کی پیروی میں مہنگائی کم کرنے کے فارمولے پر عمل کرنے اور اپنے دورِ حکومت کے آخری لمحات میں پاکستان کو سری لنکا بنانے اور اب پاک فوج کی اعلیٰ قیادت کو عوامی جلسوں میں متنازعہ بنانے کی سازش کرنے والے کا علاج کیا ہے؟ فرض کریں کہ ایسے اُلجھے ذہن والے خان اعظم ایک بار پھر وزیراعظم بن جاتے ہیں تو کیا آج وہ پاک فوج کی جس قیادت پر تنقید کررہے ہیں اور جس متوقع آرمی چیف پر انہیں اعتراض ہے، وہ محب وطن نہیں ہوگا؟ یہ بھی فرض کرلیں کہ وہ عوامی طاقت کے دباؤ پر اپنی مرضی کا آرمی چیف تعینات کروانے میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں تو کیا مستقبل کے وزیراعظم خان کو باقی عسکری قیادت کا اعتماد حاصل ہوسکے گا؟ یہ واضح رہے کہ پاک فوج میں تقرر و تبادلوں کا اپنا ایک نظام ہے اور ادارے کو اس نظام میں رہتے ہوئے کسی اور کی مداخلت قبول نہیں۔
چلیں آگے بڑھتے ہیں، افغان طالبان انتظامیہ اور وزیراعظم خان کافلسفہ پڑھتے ہیں۔ یہ ماضی قریب ہی کی تو بات ہے اور آپ کو بھی یاد ہوگاکہ خان جب وزیراعظم بنائے گئے اور تحریکِ انصاف کو تاریخ میں پہلی مرتبہ خیبرپختونخوا میں مسلسل دوسری بار حکومت بنانے کا موقع ملا تو کوئٹہ میں عمائدین کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اچانک یہ اعلان کر دیا کہ پاکستان میں تمام افغان مہاجرین بشمول عرصۂ دراز سے مقیم ایسے تمام افغانیوں کو جنہوں نے پاکستانی شہری مردو خواتین سے شادیاں کررکھی ہیں اور پاکستان میں ان کے بچے پیدا ہوئے ہیں پہلے مرحلے میں نادرا ان کی رجسٹریشن کرے گا۔
دوسرے مرحلے میں انہیں ووٹ کے حق سمیت وہ تمام حقوق دیئے جائیں گے جو کسی بھی پاکستانی شہری کا حق ہیں۔ یہ اعلان مجھ سمیت تمام پاکستانیوں اور مقتدر حلقوںکے لئے بھی یقیناً حیران کن تھا۔ وہ اس حوالے سے قائل کرنے کی کوشش بھی کررہے تھے اس اعلان کے پیچھے چھپی سازشی تھیوری کا بھی اندازہ کیا جانا ضروری ہے کہ آخر وہ ایسا کیوں چاہتے تھے؟ اور اس کے پیچھے اصل کہانی کیا تھی کہ پہلے قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہوکر اسامہ بن لادن کو شہید قرار دیا، پھر افغانیوں کو پاکستانی شہریت دینے کا اعلان کرکے ایک نئے ووٹ بینک کی تیاری کا منصوبہ بنالیا۔ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں سے مولانا فضل الرحمٰن بمقابلہ خان ، اسٹیبلشمنٹ سیاسی جنگ کا آغاز ہوتا ہے۔ بڑے مولانا صاحب حقیقی ووٹ بینک پر خفیہ افغان ووٹ بینک کو ترجیح دینے پر شدید احتجاج کرتے نظر آئے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ خیبرپختونخوا سے قبل یہی خفیہ ووٹ بینک بلوچستان پر بھی اثر انداز ہوتا رہا ہے۔ بلوچوں کے احتجاج میں یہ فیکٹر بھی بڑا نمایاں ہے۔
افغان مہاجرین و شہری بلوچستان، خیبرپختونخوا میں سیاسی و معاشی طور پر اس حد تک مضبوط ہو چکے ہیں کہ اقتدار کے ایوانوں تک کو ہلا سکتے ہیں۔ خان صاحب اسی خفیہ طاقت کے زور پر خیبرپختونخوا میں دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ ایک ایسا سنگین مسئلہ ہے جو مستقبل میں پاکستان کو ایک بہت بڑے بحران کا شکار کرسکتا ہے۔ کراچی کی مثال سب کے سامنے ہے۔ پشاور کے مقامی صحافتی حلقوں کے مطابق اس بار افغانستان کے جشن ِنُو روز پر بڑی تعداد میں افغانیوں نے شہر کے گنجان آباد علاقوں میں ریلیاں نکالیں۔ افغانستان کا جھنڈا لہرایا، ہلڑبازی کی اور پاکستان مخالف نعرے لگائے جس کا کسی حکومتی حلقے نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔(جاری ہے) بشکریہ:جنگ
واپس کریں