دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
فضائی آلودگی کا عالمی مقابلہ
عرفان اطہر قاضی
عرفان اطہر قاضی
فضائی آلودگی اس قدر بڑھتی جارہی ہے کہ لاہور اور کراچی والے اس عالمی مقابلہ آلودگی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں سر دھڑ کی بازی لگائے بیٹھے ہیں۔ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ نے تو آلودگی پر قابو پانے کیلئے ایمرجنسی تک نافذ کر کے تین دن تمام کاروبار پر پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ تعلیمی ادارے بھی بند کر دیئے ہیں۔ ہنگامی حالات سے نمٹنے کی خاطر آلودہ ترین شہروں کی ضلعی و ڈویژنل انتظامیہ کو سخت ترین اقدامات اٹھانے کی ہدایات بھی جاری کیں لیکن سندھ والے ابھی تک گومگو کی صورت حال سے دو چار ہیں کہ کیا کریں!وہ ابھی تک یہ فیصلہ ہی نہیں کر پارہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ ممکن ہے آپ اس فضائی آلودگی کو سیاسی آلودگی ہی سمجھ رہے ہوں اورآپ کے ذہنوں میں یہ خیال آرہا ہو کہ شاید یہ سب پر بھاری بڑے بھائی آصف زرداری اور بڑے میاں سبحان اللہ کے درمیان جاری سیاسی دنگل سے پیدا ہونے والی آلودگی کا ذکر کیا جارہا ہے۔ یہ آپ پر ہی منحصر ہے کہ اسے فضائی آلودگی سمجھیں یا سیاسی آلودگی ، حالات دونوں طرف ایک جیسے ہی دکھائی دے رہے ہیں۔ صُورت حال دلچسپ بھی ہے اور پریشان کن بھی۔ دونوں صُورتوں میں عوام الناس کی صحت و دماغ پر بُرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ گھٹن ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ آنکھیں سبزہ دیکھنا چاہتی ہیں مگرہر طرف دھندلا نظر آرہا ہے۔ بعض صورتوں میں تو راستہ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ سانس لیتے ہیں تو گلے میں خراش اور جلن محسوس ہوتی ہے۔ ڈاکٹر حضرات مشورہ دیتے ہیں کہ پانی زیادہ پئیں، آنکھوں پر ٹھنڈی پٹیاں رکھیں۔ صبح و شام پانی کے چھینٹے ماریں، سڑکوں پر چھڑکاؤ کریں۔ دوسری طرف محکمہ زراعت و موسمیات والے الگ سے پریشان دکھائی دیتے ہیں وہ ایک کو پکڑتے ہیں تو دوسرے کو چھوڑتے ہیں۔ فضائی آلودگی کا سدباب کرنے کی تدبیریں تو عرصہ دراز سے جاری ہیں، کبھی ایک آتا ہے تو دوسرا چلا جاتا ہے۔ پھر کوئی تیسرا آلودگی پھیلانے باہر نکل آتا ہے۔ 9 مئی کے واقعات کے بعد آلودگی گھر گھر پھیلتی جارہی ہے۔ پاکستان کے موسم اور سیاست دان دونوں ہی بے اعتبار اور آلودہ نظر آتے ہیں۔ آپ مستقبل کی کوئی پیش گوئی نہیں کرسکتے کہ آنے والے لمحے میں کون کیا کرے گا؟ آپ کو آسمان پر بادل دکھائی دیتے ہیں تو باران رحمت کی دعائیں مانگتے ہیں۔ توقع یہی ہوتی ہے کہ ابر کرم برسے گا۔ کھیتوں کھلیانوں میں فصلیں سونا اگلیں گی لیکن محکمہ زراعت و موسمیات والے کہتے ہیں کہ بھائی یہ آپ کی نظروں کا دھوکہ ہے یہ بادل نہیں فضائی آلودگی کے نتیجے میں سموگ کے گہرے اثرات ہیں جو آپ کی آنکھوں کو دھندلا اور دل و دماغ کو متاثر کر رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آسمان پر تارے نکلیں گے لیکن یہ رات کو نہیں ہمیں دن میں دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی ایک ایسا شخص دکھائیں جو اس صُورت حال سے پریشان نہ ہو۔ نگران وزیر اعلیٰ پنجاب سمجھتے ہیں کہ تین دن کاروبار بند کرنے سے آلودگی ختم ہو جائے گی۔ تاجر اس سوچ سے زبردست اختلاف رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نگرانِ اعلیٰ صاحب ترقیاتی وتعمیراتی منصوبوں کی جلد تکمیل بارے جس قدر فکر مند ہیں اسی طرح فضائی آلودگی بارے جدید سائنسی طریقوں پر عمل کریں تو ممکن ہے مثبت نتائج برآمد ہوں ایسی چھاپہ مار مہم کبھی ثمر آور نہیں ہوتی، عوام تو کل بھی اس آلودگی سے متاثر تھے اور آج بھی مہنگائی سے کچلے جارہے ہیں۔ وہ کبھی اپنا چولہا جلاتے ہیںتو کبھی بجھاتے ہیں، نگران پٹرول سستا کرتے ہیں تو آسمان سے بجلی گراتے ہیں عوام بجلی کا بل ادا کرتے ہیں تو گیس کی قیمت کئی سو گنا بڑھا دی جاتی ہے۔ کچھ سمجھ ہی نہیں آرہی کہ فضائی آلودگی بجلی جلانے سے بڑھتی ہے یا پٹرول سستا ، گیس مہنگی کرنا اس کا سبب ٹھہرا ہے۔ ہرما ہ پندرہ روز میںپٹرول، بجلی، گیس کی قیمتوں میں کمی بیشی کا یہ نسخہ بُری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ کاروباری حضرات ان حالات میں غیر یقینی صورت حال سے دو چار ہیں۔ ڈالر کی کم زیادہ ہوتی قیمت، تیار کنندگان اور برآمد کنندگان کو اشیاءکی قیمتیں مستحکم کرنے کی ضمانت نہیں دیتی، آلودگی صرف فضامیں ہی نہیں بلکہ ہمارے اعلیٰ دماغوں میں بھی گھسی نظر آتی ہے۔ کسی آلودہ دماغ کو یہ سمجھ ہی نہیں آرہی کہ اگر معیشت مستحکم کرنا ہی مقصود ہے تو پہلے سیاسی آلودگی ختم کرنا ہوگی۔ سیاسی آلودگی ختم ہوگی تو معاشی آلودگی کے خاتمے کی تدبیر کرنا آسان ہوگا۔ مہنگائی کنٹرول کرنا ہے یا برآمدات میںاضافہ اس کے لئے ماہانہ یا پندرہ روزہ قیمتوں کے تعین کا نظام ختم کرکے کم از کم ششماہی بنیادوں پر فیصلے کرنا ہونگے۔ ایک وقت تھا کہ وفاقی بجٹ میں پٹرول ، گیس ، بجلی کی قیمتوں کا تعین سالانہ بنیادوں پر کیا جاتا تھا۔ بہت مشکل صورت حال درپیش ہوتی تو چھ ماہ بعد منی بجٹ میں ردو بدل کر دیا جاتا جس کے نتیجے میں کاروباری حضرات اور عوام کو اپنا بجٹ بنانے میں آسانی ہوتی۔ آج روزانہ کی بنیاد پر کاروبارِ حکومت اور معیشت چلائی جارہی ہے۔ جس سے سیاسی و فضائی آلودگی کم ہونے کی بجائے مزید بڑھتی جارہی ہے۔ دنیا کے تیزی سے بدلتے حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیںکہ سیاسی باقیات کو آگ لگانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے آلودگی ختم کرنی ہے تو نگران کھلے دل سے فیصلے کریں ،ممکن ہے بگڑتے حالات قابو میں آجائیں۔
واپس کریں