عرفان اطہر قاضی
مرشد نے بھی کیا خوب قسمت پائی ہے کہ لوگ بیک وقت محبت بھی کرتے ہیں اور ان کے اندازِ سیاست سے شدید اختلاف بھی رکھتے ہیں۔ کیسے خوش قسمت انسان ہیں کہ اقتدار سے بذریعہ تحریکِ عدم اعتماد نکالے بھی گئے، اُن کی اپنی پارٹی کے اراکینِ اسمبلی ساتھ چھوڑ گئے لیکن لوگ آج بھی ان کی ایک کال پر اپنی محبت کا اظہار کرنے سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ یہ مرشد کی شخصیت کا سحر ہے یا بڑھاپے کے حسن کا کمال کہ لوگ لاکھ کوتاہیوں کے باوجود آج بھی اُنہیں پیار کرتے ہیں۔ آپ اسے مرشد کی کرشماتی شخصیت بھی قرار دے سکتے ہیں یا مریدین کی دیوانگی کہ وہ مرشد کو اقتدار سے الگ نہیں دیکھنا چاہتے لیکن آپ اسے مرشد کی بدقسمتی ہی کہیے کہ جب اللہ نے اُنہیں اقتدار سے نوازا تو وہ عوام کی توقعات پر پورا نہ اتر سکے۔ اُنہوں نے ایک سو دن میں ملک کی تقدیر بدلنے کے جو دعوے کیے تھے، 200ارب ڈالر قرض دینے والوں کے منہ پر مارنے تھے۔ پٹرول، آٹا، گھی، چینی کی قیمتیں آسمان سے نیچے لانی تھیں، غریبوں کو گھر اور ایک کروڑ نوکریاں دینا تھیں لیکن وہ ایک بھی وعدہ پورا نہ کر سکے۔ مائنڈ گیم کے ماسٹر ہونے کے دعویدار مرشد 3سال 8ماہ یعنی 1333دن سسپنس، مار دھاڑ، پکڑ دھکڑ اوربڑھک بازی سے بھرپور فلم مولا جٹ پارٹ ٹو دکھا کر چلے گئے لیکن اپنے پیچھے بیڈ گورننس اور لایعنی نعرے بازی کی سبق آموز داستانیں بھی چھوڑ گئے، اگر کوئی ان سے سبق سیکھنا چاہے تو خیر ہی خیر ہے لیکن کسی نے پھر یہ غلطیاں دہرائیں تو یاد رکھیے کوئی مائی کا لعل اس ملک کو مزید انتشار سے نہیں بچا سکتا۔ مرشد کے عرصہ اقتدار میں تو ایسے محسوس ہوتا رہا کہ ہم نے ایک ہولناک فلم دیکھتے دیکھتے اپنی نیند اور صحت دونوں کو متاثر کیا اور ساتھ ہی ملکی معیشت اور سیاست کا بھی دیوالیہ نکل گیا۔ جانے والوں نے جو کیا سو کیا، آنے والوں سے کیا توقعات رکھیں، موجودہ اسمبلیوں کا ڈیڑھ سالہ عرصہ آنے اور جانے والوں کے لیے ایک کڑا امتحان ہے۔ دیکھتے ہیں کہ مرشد جس راہ پر ملک کو ڈال گئے ہیں اس سے بچ کر کیسے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ مرشد کے دورِ حکومت میں کوئی دن ایسا نہیں گزرا جس میں یوٹرن نہ لیے گئے ہوں۔ مرشد کا انتخاب جن سہاروں کے ذریعے ممکن ہوا جب تک وہ طرف دار رہے مرشد ان کے گُن گاتے رہے جب وہ نیوٹرل ہوئے تو مرشد کی تنقید کا نشانہ بنے۔ مرشد آئین و قانون کی بالادستی کے نعرے تو بہت لگاتے رہے لیکن جب بات اپنے اوپر آئی تو اُنہی کے خلاف تحریک انصاف کے سوشل میڈیا سیل کے ذریعے ایسی مہم چلائی کہ اللہ کی پناہ۔ کوئی سمجھے نہ سمجھے مرشد مائنڈ گیم میں بھی شکست کھا گئے۔ مرشد نے حالات کی نزاکت کو نہ سمجھا۔ اہم ترین تقرریوں پر وقت سے پہلے اپنی سوچ کا اظہار کرکے تقسیم کی بنیاد رکھی اور یہ تاثر عام ہوا کہ ایک صفحے کی کہانی ختم ہو گئی۔ اس کہانی کے ختم ہونے سے مزید کئی کہانیوں نے جنم لیا۔ قومی سلامتی کے اداروں اور عدلیہ کو مرشد کے دور حکومت میں جتنا متنازعہ بنایا گیا، پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ جتنا لاڈ پیار مرشد سے کیا گیا اتنا راج دُلارا پہلے کوئی نہیں گزرا۔ مرشد نے اپنی سلطنت کو مضبوط تر کرنے کی خاطر ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرنے کی کوشش کی۔ عدلیہ میں پسند و ناپسند کا تاثر پیدا کرکے چند معزز جج صاحبان کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ انہیں متنازعہ ریفرنسز کے ذریعے عہدوں سے ہٹانے کی کوشش کی گئی۔ کہتے ہیں کہ اکلوتی اولاد کو جب ضرورت سے زیادہ لاڈ پیار مل جائے تو سر کو آجاتی ہے۔ کچھ ایسا ہی اس معاملے میں بھی ہوا کہ ملک کے دو اہم ترین اداروں کا عوام میں تاثر خراب کرنے کی دانستہ کوشش کی گئی۔ مرشد برملا ٹی وی انٹرویوز اور عوامی جلسوں سے خطاب کے دوران انہیں مسلسل متنازعہ بناتے رہے اور بات افواہوں تک جا پہنچی کہ آخری لمحے اعلیٰ ترین شخصیت کی برطرفی کی اطلاعات آنے لگیں۔ جتنے منہ اتنی باتیں، اس وقت تحریک انصاف سوشل میڈیا سیل اداروں اور ان سے وابستہ اہم شخصیات کی کردار کشی کی باقاعدہ مہم چلا رہا ہے۔ یہ مبینہ سازش امریکہ نے تیارکی یا اس کے سارے کردارآستین کے سانپ نکلتے ہیں، آپ دیکھیں گے جوں جوں وقت گزرے گا نقاب اترتے جائیں گے۔ کوئی مرشد سے یہ تو پوچھے کہ امریکی سازش کا مقصد اگرصرف آپ کو ہٹانا تھا تو آپ نے اس کا بروقت تدارک کیوں نہیں کیا؟ کیوں نہیں اس سازشی مراسلے کو اعلیٰ ترین فورم عدلیہ اور قومی سلامتی کے اداروں کے سامنے پیش کیا۔ دعوے تو یہی کیے جاتے ہیں کہ سب کو امریکہ کا سازشی خط دکھایا گیا لیکن کوئی اس کی حقیقت تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ سیاسی کارکنوں کو یہی مشورہ ہے کہ موجودہ صورت حال میں جذباتی ہونے کی بجائے سوچیں کہ جس شخصیت نے خود اپنی حکومت بچانے کے لیے اداروں پر دباؤ ڈالا، ان سے ریسکیو کے لیے بار بار مدد مانگی لیکن جب بات ہاتھ سے نکل گئی تو ایک نیا محاذ کھول کر عوام کو یہ تاثر دینے کی بھرپور کوشش کی کہ کپتان کسی سے ڈرتا نہیں۔ یہ چورن بہت زیادہ دن تک بکتا نظر نہیں آرہا۔ عوام کا کیا ہے جو چاہیں، جب چاہیں، جس طرح چاہیں امریکہ کو غدار کہیں یا یار کہیں۔ یہ صدا بہار نعرہ ہر دور میں ہر سیاسی جماعت نے مخالف جماعت کے خلاف لگایا، نتیجہ کیا نکلا؟ سب غدار قرار پائے، تھوڑا انتظار فرمائیے، آپ کو آنے والے دنوں میں ایسی ایسی کہانیاں سننے کو ملیں گی کہ آپ کانوں کو ہاتھ لگائیں گے۔ آپ ثبوت دیکھتے جائیں گے، شرماتے جائیں گے۔ اصل کھیل استعفوں کے بعد شروع ہوگا۔ ہوش کے ناخن نہ لیے تو خود ساختہ سازش کے سب کردار جیل جائیں گے۔بشکریہ جنگ
واپس کریں