عرفان اطہر قاضی
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔سلسلہ وار ”آئیے! سازش کرنا سیکھیں“ کے ابتدائی حصے میں اس بات کی وضاحت کر دی گئی تھی کہ سازش کرنے والے کردار ایک دوسرے کی ساکھ برقراررکھنے کا خاص خیال رکھتے ہیں اور اب ایک بار پھر امریکی، خان کو ریسکیو کرنے آئے ہیں۔
گویا کہ سازش کھل کر سامنے آرہی ہے اور بلی تھیلے سے پھدک کر پہلے امریکی سفارت خانے میں فواد چوہدری کی شکل میں داخل ہوئی پھر بھاگ کر بنی گالہ میں جا گھسی۔ خان سے پوچھنا یہ ہے کہ ”ہم کوئی غلام ہیں“ جو آپ اپوزیشن میں بیٹھے امریکی سفارت کاروں سے ڈھکی چھپی ملاقاتوں میں اپنے نام نہاد بیانیے پر معافیاں مانگ رہے ہیں۔
عاشقانِ عمران! اب بتائیں کہ ہم کوئی غلام ہیں اور یہ ملاقاتیں کس کے خلاف سازش ہیں؟ جب حکومت میں تھے تو اپوزیشن پر الزام لگاتے تھے کہ امریکیوں سے مل کر ان کے خلاف سازش کی جارہی ہے، اب یہی سازش وہ خود حکومت کے خلاف کررہے ہیں۔ ہم کوئی غلام ہیں؟ یہاں مرد کا بچہ صرف ایک ہی پیدا ہوا تھا جس نے راجہ بازار راولپنڈی میں ”سفید ہاتھی“ کا دھمکی آمیز خط لہرایا اور امریکی سازش کا پھانسی گھاٹ تک سامنا کیا،وہ تھا ذوالفقار علی بھٹو، جس نے جو کہا آخری دم تک اس پر ڈٹا رہا۔ تیسری دنیا کا نعرہ لگایا، اُمت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا، پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا اور پھانسی کے پھندے پر جھول گیا۔ باقی سب رلے ملے ہیں۔
نوجوان نسل کو تازہ ترین حالات، واقعات کے پس منظر میں کھلی آنکھوں اور ثبوتوں کے ساتھ سازش کرنے کے گُر سکھانے کی کوشش کی جارہی ہے اور ایک آپ ہیں کہ نالائق اسٹوڈنٹ کے تمام معیاروں پر پورا اُترتے ہیں۔ بار بار سبق یاد کرانے کے باوجود اگلا پچھلا سب بھول بھال کر چکنے گھڑے پر پاؤں رکھ کر پھسل جاتے ہیں۔ ملک وقوم کے خلاف اس سے بڑی سازش کیا ہوسکتی ہے کہ ملک کا ایک بڑا حصہ سیلاب کے پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ لاکھوں خاندان اُجڑ گئے، دو وقت کی روٹی میسر نہیں اور خان بڑے مزے سے جلسے پر جلسے کئے جارہے ہیں اور نعوذ باللہ !گوجرانوالہ جلسہ میںجو ”تبلیغ“ کی !، استغفراللّٰہ! آپ اس پر بھی سر دُھن رہے ہیں۔ تالیاں پیٹتے ہیں۔ قوم یوتھ کے لیڈر کو تواتنی بھی توفیق نہیں ہوئی کہ متاثرین سیلاب کی کوئی داد رسی کرتے۔ صرف چار آدمیوں کو پچیس تیس کیمرہ مینوں کے ساتھ سجی سجائی میز پر متاثرین کے نام پر کھانا کھلانے کا فوٹو سیشن، پانچ ارب روپے (جو شاید کبھی ظاہر ہی نہیں ہوں گے کہ کہاں خرچ ہوئے) کے شور شرابے کے دوران ملک کے خلاف سازش یہ کررہے ہیں کہ پی ٹی آئی کے خفیہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ برطانیہ سے ملنے والا امدادی سامان بازاروں میں فروخت کیا جارہا ہے جبکہ سوشل میڈیا پر جو تصاویر سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کو چھ سو سے زائد افراد نے ہیش ٹیگ کی ہیں وہ ماضی میں بھارت کو ملنے والے امدادی سامان کی ہیں اور ساتھ ہی یہ سازش کی جارہی ہے کہ کوئی ملک متاثرین کی کسی قسم کی امداد نہ کرے ورنہ یہ سب ”چور“ ہڑپ کر جائیں گے۔ اپنی آنکھیں کھلی رکھیں۔ آج کے بعد سبق یاد نہ کیا تو مستقبل میں ہم سے بھی کوئی توقع نہ رکھیں کہ ہم آپ کو کچھ ایسا گھول کر پلا دیں گے کہ راتوں رات سب کچھ بدل جائے گا۔ قوم کی ایک غلطی صدیوں پر بھاری ہو جاتی ہے۔ یہ امریکی ایک بار پھر بنی گالا جا پہنچے ہیں تو فکر لاحق ہوئی کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔ سو آپ کو آن ریکارڈ آگاہ کئے دیتے ہیں کہ یہ سب اقتدار کا گورکھ دھندا ہے۔
گزشتہ کالم میں بات ہو رہی تھی خیبرپختونخوا کی سیاست میں افغانیوں کے عمل دخل کی اور ہمارا مو قف یہ ہے کہ افغانی ،خیبرپختونخوا میں اپنا مضبوط خفیہ ووٹ بینک اور اثرو رسوخ رکھتے ہیںجو کسی صورت درست نہیں۔ اللّٰہ جب سچائی آشکار کرنے پر آتا ہے تو پہلے خدائی اشارے ہوتے ہیں جب انسان کی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے تو پھر رب حقیقتیں کھول کر سامنے رکھ دیتا ہے۔
ایشیا کپ میں پاکستان کے ہاتھوں افغانستان کی شکست پر افغان تماشائیوں کی اسٹیڈیم میں ہنگامہ آرائی، پاکستانیوں پر تشدد ا ور میچ کے دوران افغان کھلاڑیوں کا پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ نفرت انگیز رویہ اور میچ کے اختتام پر ہنگامہ آرائی کرنے والے تماشائیوں کو یو اے ای حکومت کی طرف سے سزائیں اور ان تماشائیوں کی جیبوں سے پاکستانی پاسپورٹ نکلنا، سب سے اہم نقطہ ہے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ افغانیوں کے پاس پاکستانی پاسپورٹ برآمد ہونے پر دفتر خارجہ میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔
اس حوالے سے ادارے متحرک ہیں اور کوشش کی جارہی ہے کہ تحقیقات کے بعد ایسے افغانیوں کے پاکستانی پاسپورٹ منسوخ کر دیئے جائیں۔ واضح رہے کہ ایشیا کپ کےفائنل میں پاکستان کی شکست اور سری لنکا کی فتح پر کچھ لوگوں نے کے پی کے میں بھرپور جشن منایا۔
آپ کو یاد ہوگا چند ماہ قبل حیدر آباد میں ایک پشتون لڑکے ”بلاول“ کا معمولی تنازعہ پر قتل اور اسے سندھی، پشتون لسانی فساد کا رنگ دینا ،کراچی میں توڑ پھوڑ کے دوران طالبان کے جھنڈے لہرانا ایسے واقعات ہیں کہ اگر ان سے سبق حاصل نہ کیا گیا اور خیبرپختونخوا میں ”خفیہ ووٹ بینک“ کی چھانٹی یا اسکروٹنی نہ کی گئی تو بات بگڑنے کا احتمال ہے جس کا ازالہ مشکل ہوگا۔(جاری ہے)
بشکریہ:جنگ
واپس کریں