عرفان اطہر قاضی
انسانی زندگی اپنے اردگرد کے ماحول سے کس طرح شعوری و لاشعوری طور پر متاثر ہوتی ہے اس کی ایک تازہ مثال یہ ہے کہ قتل کی ایک گھناؤنی واردات میں مجرموں نے ہنستے بستے، جیتے جاگتے انسان کو چھریوں کے پے در پے وار کرکے بے دردی سے قتل کر دیا۔ پھر بھی انتقام اور درندگی کی ہوس کم نہ ہوئی تومقتول کی لاش کو بجلی کے جھٹکے دیئے گئے اور موقع واردات سے فرار ہوگئے۔ ظاہر ہے پولیس حسب روایت واردات کی تفتیش بھی کرے گی اور مجرموں کی تلاش بھی جاری رکھے گی۔ ایسی خونیں گھناؤنی وارداتیں درندوں کے اس معاشرے میں سرعام ہوتی رہتی ہیں۔ مذکورہ واردات میں لاش کو بجلی کے جھٹکے دینے کے عمل نے مجھے چونکا دیا کہ آخر چھریوں کے وا ر سے مقتول مر تو چکا تھا پھر لاش کو بجلی کے جھٹکے کیوں دیئے گئے۔ انسانی نفسیات کا یہ پہلو بہت نمایاں ہے کہ لاشعور میں جنم لینے والے منفی و مثبت عناصر شعوری شکل میں کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی صورت ظاہر ہوجاتے ہیں۔ ممکنہ طور پر اس واردات سے قبل مجرموں کے گھر کا بجلی کا بل بھی اتنا زیادہ آیا ہوگا کہ انہوں نے انتقام کو مزید ٹھنڈا کرنے کی خاطر مقتول کی لاش کو بجلی کے جھٹکے دینے کے عمل کو آلہ قتل کے طور پر استعمال کیا ہو۔
کچھ ایسا ہی عمل ہمارے موجودہ حکمران پہلے ماہانہ اب روزانہ کی بنیاد پر دہرا رہے ہیں بجلی ، گیس، پٹرول بموں کی صورت میں۔ غریب فریادیں کررہے ہیں، دہائیاں دے رہے ہیں، حکمرانوں کو جھولیاں اٹھا اٹھا کران گنت بددعائیں دے رہے ہیں لیکن ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ مالی تنگ دستی کی شکار مائیں غذائی قلت کا شکار ہیں۔ بے بس لاچار مالی حالات کے شکار خاندان اجتماعی خودکشیوں پر مجبور ہیں۔ میاں بیوی کے رشتے لڑائی جھگڑے کے باعث طلاقوں پر ختم ہو رہے ہیں لیکن کسی حکمران، اتحادی یا اپوزیشن جماعت کے رہنما کو یہ توفیق تک نہیں ہوتی کہ بھوک سے مرتے غریبوں کے جنازوں کو کندھا ہی دے آئے۔ ایک کمرے کے کئی مکین آگ برساتی گرمی و حبس کے موسم میں دن بھر محنت مزدوری کرکے جب شام کو گھر آتے ہیں تو بجلی نہیں ہوتی، ایک پنکھا چلانے کی سکت نہ رکھنے والوں کو پندرہ سے بیس ہزار روپے بجلی کے بل بھیج دیئے جاتے ہیں۔ غریب تو غریب اب تو مڈل کلا س اور تنخواہ دار طبقے کے لوگ بھی کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ کہانی کسی ایک فرد کی نہیں گھر گھر کی ہے۔ ہر طرف بجلی اور گیس کےبلوں پر ماتم ہو رہا ہے۔ مڈل کلاس دم توڑ چکی ہے۔ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کا اتنا بوجھ لاد دیا گیاہے کہ اس کے کمزور کندھے یہ بوجھ اٹھانے کے قابل ہی نہیں رہے۔ کم از کم بیس کروڑ سے زیادہ افراد زندگی اور موت کے درمیان زندگی گزارنے پر مجبور ہیں لیکن آئی ایم ایف کے کارندے زمینی حقائق سے بے خبر اندھا دھند ٹیکس پر ٹیکس تھوپے جارہے ہیں۔ وفاقی بجٹ کا یہ گورکھ دھندا روٹی کے ایک ٹکڑے کو ترسنے والے غریبوں کی عقل و شعور سے بالکل بالاتر ہے۔ اس بجٹ نے قوم کو شودر اور برہمن کی صورت نفرت ، تعصب، حقارت کی دو واضح لکیروں میں تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ کیسا نظام معیشت ہے کہ طاقت ور کو مزید طاقت ور اور کمزور کو کمزور تر کیاجارہا ہے۔ حکمران طبقات اور ان کے بھی حکمران سبھی تو پراپرٹی سمیت اہم ٹیکس مدات سے مستثنیٰ قرار دے دیئے گئے ہیں۔ اب وہ کروڑوں کا کاروبار کریں، اربوں کی جائیدادوں کی خریدوفروخت سے مزید کھربوں روپے بنائیں کوئی پوچھنے والا نہیں اور عام آدمی اپنی وراثتی جائیداد بھی اولاد کو منتقل کرے تو بھاری ٹیکس ادا کرکے معیشت کا سارا بوجھ اٹھائے تو یہ نظام کیسے چلے گا؟ موجودہ حکمرانوں نے پیٹ پر پتھر باندھ کر قوم کی تقدیر بدلنے کی قسمیں کھائی تھیں۔ 300 یونٹ تک مفت بجلی دینے کے وعدے کئے تھے۔ سب دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ سارے سبز باغ اُجڑ گئے۔ وزیراعظم صاحب کہتے تھے کہ اپنے کپڑے بھی بیچ کر غریبوں کا سہارا بنوں گا ۔ اُلٹا غریبوں کے تن بدن سے پھٹے پرانے کپڑے بھی اتار لئے گئے ہیں۔ آج پاکستان کا غریب نہیں سارے کا سارا نظام ننگا ہو رہا ہے۔ ملک کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ کے سرکاری ملکیتی ادارے اور جائیدادیں اونے پونے داموں فروخت کی جارہی ہیں۔ بجلی تقسیم کار کمپنیاں (آئی پی پیز) پاکستان کی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں۔ یہ کیسا تقسیم کار نظام ہے کہ عام آدمی اپنی جیب سے لاکھوں روپے کے اخراجات سے سولر سسٹم لگوائے، سورج سے بجلی پیدا کرکے بیس روپے یونٹ سے کم پر ان کمپنیوں کو فراہم کرے اور یہ کمپنیاںسفاکانہ ، بے رحمانہ منافع کے ساتھ 65 روپے فی یونٹ سے زائد پر صارفین کو واپس کریں، صارفین کو بجلی ملے نہ ملے ان کمپنیوں سے کوئی بجلی خریدے یا نہ خریدے انہیںسفاک معاہدوں کے تحت عوام کی رگوں سے خون نچوڑ کرہر صورت ادائیگیاں کرنا ہی ہوں گی۔ حکمرانوں اور ان کے اتحادوں اور سہولت کاروں کے اللے تللے ختم نہیں ہو رہے۔ شودر اور برہمن کی تقسیم پر مبنی معاشرے میں حکمران طبقات کوبھاری تنخواہوں، مراعات کے ساتھ ساتھ قیمتی رہائشوں، لگژری گاڑیوں، مفت آمدورفت، طبی سہولتوں اور پُرتعیش زندگی گزارنے کی تمام تر آسائشیں میسر ہوں اور غریب ایک وقت کی روٹی کو بھی ترسے تو کمپنی کا ایسا نظام اب مجھے چلتا نظر نہیں آرہا۔کیا آپ کو یہ نظام چلتا دکھائی دیتا ہے؟
واپس کریں