دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بانی پی ٹی آئی کے نام
عرفان اطہر قاضی
عرفان اطہر قاضی
بہت دیر کی مہربان آتے آتے۔ بانی پی ٹی آئی کا مسئلہ یہ ہےکہ انہیں ہر بات وقت گزرنے کے بعد سمجھ میں آتی ہے۔ انکی شخصیت کا یہ پہلو ہمیشہ سے ایک سوالیہ نشان بنا رہا ہے کہ وہ اپنی ناک سے آگے کبھی کچھ نہیں دیکھتے۔ انکے خیرخواہ کہتے کہتے تھک گئے کہ’’ خان جی! جان دیو، گل مذاکرات ول آن دیو‘‘۔ لیکن خان اپنی ضد پر اڑا رہا۔ خود بھی جیل گیا اور اپنے قریبی ساتھیوں کو بھی زندان میں ڈلوا دیا۔ جو باہر ہیں، آئے روز درجنوں مقدمات میں پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ آخر احتجاجی سیاست سے ملک و قوم یا پی ٹی آئی والوں کو کیا ملا؟ قوم کا وقت برباد کیا، ملکی معیشت کو اربوں ، کھربوں کا نقصان پہنچا کر دیوالیہ ہونے کے دہانے تک پہنچا دیا پھر بھی سکون نہ ملا۔ احتجاجی مارچوں، دھرنوں کے باعث عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو کررہ گئی کہ ہم تباہی و بربادی کی ایسی کھائی میں گر گئے ، جہاں سے نکلنا محال ہوچکا ہے۔ خان نے ملکی و بین الاقوامی حالات کا ٹھیک سے تجزیہ کیا نہ ہی خطے میں تیزی سے رونما ہونیوالی تبدیلیوں کے دوررس منفی اثرات بارے کبھی سوچا۔ خان سے یہی تو ہمارا اختلاف رہا ہے کہ مجمع گیری کون سا کمال ہے؟ یہاں تو سانپ نیولے کی لڑائی دکھانے والے مداری بھی کسی چوک چوراہے پر درجنوں لوگوں کو اکٹھا کر لیتے ہیں۔ لکڑی کی ایک کھونٹی پر بکری کو چاروں ٹانگوں پرکھڑا کرنیوالے ماہر شعبدہ باز ہوں یا جانور کی چربی پگھلا کر مردانہ طاقت بڑھانے والے تیل کے نام پر لوگوں سے پیسے بٹورنے والے بازی گر،ہاتھ کی صفائی سے سادہ لوح افراد جو مزاروں، درباروں کے باہر میلوں ٹھیلوں میںمجمع گیروں کی چرب زبانی اورمہارت سے لٹ جاتے ہیںاور پھر بھی سبق نہیں سیکھتے۔ یہی ہمارا اندازِ سیاست رہا ہے۔ کاش! ہماری سیاست عقل ، فہم و فراست ، تیزی سے بدلتے ملکی و بین الاقوامی حالات کے گرد گھومتی اور آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ مزاحمت کی سیاست سے کوئی اختلاف نہیں لیکن اداروں اور ریاست سے ٹکراؤ پر ہرگز اتفاق نہیں۔ بات منوانے کے بھی کوئی ڈھنگ ہوتے ہیں۔ سیاست میں اتنی گنجائش تو رکھی جانی چاہیے کہ بات بگڑنے پر کوئی دوسرا اسے سنبھال سکے۔ آپ نے تو کسی کو بھی کہیں کا نہیں چھوڑا کہ حالات نے اب اس ڈگر پر لا کھڑا کیا ہے کہ پی ٹی آئی کے ہرکارے کبھی بڑے مولانا صاحب کی طرف دوڑتے ہیں تو کبھی محمود خان اچکزئی کا ہاتھ تھام لیتے ہیں۔آخر بات (ن) لیگ کے سپیکر قومی اسمبلی کے دروازے تک جا پہنچی ہے ۔ دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے کہ کوئی بات بھی یقینی طورپر نہیں کہی جاسکتی کہ آپ کب کس وقت یوٹرن لے کر مذاکرات کے دروازے بند کر دیں۔ کاش! متوقع بین الاقوامی تبدیلیوں میں آپ کا کردار ملکی سطح پر تسلیم کیا جاتا۔ امریکہ پر سازش، مداخلت، حکومت گرانے کے الزامات لگائے اور اسی عطار کے لونڈے سے پھر دوا بھی مانگ رہے ہیں۔ سعودیہ آپ کو مشکل وقت سے نکال سکتا تھا وہ دروازہ بھی بند کر دیا۔ چین سے معاملات کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ قبلہ وکعبہ اسٹیبلشمنٹ ابھی تک آپ کے نشانے پر ہے۔ نوجوانوں میں نفرتوں کے ایسے بیج بوئے کہ جو نسل در نسل پروان چڑھنے والے تناور درخت بنتے جارہے ہیں۔ سیاسی مخالفین کیلئے جو قبریں اپنے ہاتھوں سے کھودی تھیںاب انہی میں سکون تلاش کررہے ہیں۔ مخالفت کی کوئی تو حد ہوتی ہے۔ اب جا کر بات سول نافرمانی سے قبل مذاکرات پر رکی ہے، جس کا انجامِ بخیر تو فی الوقت ممکن نظر نہیں آتا، ایک طرف مذاکرات تو دوسری طرف سول نافرمانی کی دھمکی، آخر آپ چاہتے کیاہیں؟ کیا یہ مذاکرات ہو رہے ہیں یا ہم’’ہائی جیکنگ‘‘کا کوئی سین دیکھ رہے ہیں کہ جیسے کوئی ہائی جیکر ”یرغمالیوں“ کے عوض گن پوائنٹ پر اپنے مطالبات کی منظوری چاہتا ہو۔ محترم بانی صاحب! قوم کا بہت نقصان ہو چکا۔ آپ کے اندازِ سیاست سے کوئی راہ کھلتی نظر نہیںآرہی۔ ٹرمپ کی آمد سے بہت بڑے ریلیف کی توقع لگائے بیٹھنے کی یہ سوچ کہ ہم عراق، لیبیا، مصر،شام کی بربادی کے بعد ایران پر بڑھتے دباؤ اور بائیڈن انتظامیہ کی رخصتی سے قبل پاکستان کے میزائل پروگرام پر پابندیوں کو مستقبل میں بڑے چیلنجوں کی صورت دیکھ رہے ہیں،یہ وقت سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا ہر گزنہیں ، اپنے معاملات اللہ ، عدلیہ اور حالات پر چھوڑ کر غیر مشروط طور پر قوم کی خاطر آگے بڑھئے، اپنے سوشل میڈیا ونگز کو فوری لگام ڈال کر اداروں کے خلاف زہر افشانی سے باز آنے کی واضح ہدایات جاری کیجئے۔ریاست کے خلاف پروپیگنڈا بند کرکے پی ٹی آئی کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے کارکنوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسلح افواج، سکیورٹی فورسز کے ساتھ اظہار یک جہتی اور عسکری قیادت پر بھرپور اعتماد کا اظہاربھی ایک احسن اقدام تصور کیا جائے گا۔ اگر ممکن ہو تو ایک قدم اورآگے بڑھتے ہوئے افغان طالبان، کالعدم ٹی ٹی پی، بی ایل اے سے تعلق رکھنے والے فتنۃ الخوارج کے دہشت گردوں سمیت جو بھی ریاست کے خلاف کھڑا ہو واضح طور پرکہیں کہ ہم اس کے خلاف ہیں۔ بانی پی ٹی آئی اگر خلوص نیت سے چاہیں تو بند راہیں کھل سکتی ہیں۔ خود کو فیض حمید کے ملٹری کورٹ ٹرائل سے بالکل الگ تھلگ کرلیں۔ باعزت اور پُروقار طریقہ تو یہی ہے کہ قومی یک جہتی اور بدلتے حالات میں اپنی انا نہیں قوم کو درپیش سنگین چیلنجوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسے تمام عناصر جنہوں نے کسی بھی مرحلے پر ریاست،فوجی تنصیبات اورشخصیات کو نشانہ بنایا یا ایسی کسی سازش، منصوبے کا حصہ بنے اوربیرون ملک سے سوشل میڈیاکے ذریعے ریاست پر حملہ آور ہونے والوں سے ہر قسم کا تعلق ختم کرنے کا اعلان مذاکرات سے قبل خیر سگالی کے طور پر بہترین حکمت عملی قرار دی جاسکتی ہے۔ بانی پی ٹی کے نام یہی ہمارا پیغام ہے۔
واپس کریں