عرفان اطہر قاضی
ہم بلوچستان کے لمحہ بہ لمحہ بگڑتے حالات بارے لکھ لکھ کر ہلکان ہوگئے۔ اشاروں، کنائیوں اور کھلے الفاظ میں لکھا کہ عام بلوچ کی حب الوطنی پر سوال مت اٹھائیں اپنے گریبان میں جھانکیں کہ اصل مسائل کیا ہیں اور انہیں سوچ سمجھ کر حل کرنے کی کوشش کریں۔ بلوچ کو وفاق سے بہت گلے شکوے ہیں۔ وہ پنجاب نہیں وفاق اوراس سے منسلک قومی سلامتی کے اداروں سے جو توقعات رکھتے ہیں آج ان کی سوچ سے بالکل اُلٹ ہو رہا ہے۔ بلوچستان میں اقتدار کی جنگ میں عام بلوچ بُری طرح پس رہا ہے۔ مسئلہ بلوچ اور پشتون کے درمیان ووٹ بینک کے عدم توازن سے شروع ہوتا ہے اور الزام وفاق میں برسراقتدار پنجابیوں پر لگا کرانہیں نشانہ بنایا جاتاہے۔ جب بلوچوں کو اہمیت دینے کی بجائے پشتونوں کو سیاسی طور پر مضبوط کیا جا رہا ہو تو ظاہر ہے افغان بھی پشتونوں کے ساتھ جڑے ہیں جو مہاجرین کے روپ میں پاکستانی شناخت اور شناختی کارڈ حاصل کر کے بلوچ ووٹ بینک پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ عرصہ قبل تربت سے کوئٹہ تک سات روزہ قیام، بذریعہ سڑک سفر کے دوران ذاتی مشاہدات، مقامی بلوچوں کے خیالات اور سیاسی و سماجی شخصیات سے تبادلہ خیالات کی رو داد انہی کالموں میں شائع کی گئی تھی کہ جس میں یہ بات کھل کر سامنے آئی تھی کہ ضیاء دور میں افغان جہاد کے نام پر ہمارے خلاف جو عالمی کھیل رچایا گیا تھا اس کے گہرے منفی اثرات اب سامنے آرہے ہیں کہ بلوچستان سیاسی طور پر بلوچ اور پشتون بشمول افغان کے درمیان تقسیم ہو چکا ہے۔ اس وقت حالات آج سے قدرے بہتر مگر خاموش سمندر میں طوفان کی نشان دہی کررہے تھے کہ بلوچستان کا صوبائی دارالحکومت کوئٹہ واضح طور پر بلوچ اور پشتون آبادیوں میں تقسیم ہو چکا تھا۔ بلوچ پشتون آبادیوں میں نہیں رہ سکتے تھے اور پشتون بلوچوں کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں تھے۔
پنجابی بلوچوں سے خوف زدہ تھے اسی لئے پشتون آبادیوں میں خودکو زیادہ محفوظ تصور کرنے پر مجبور تھے۔ وفاقی طاقت ور اداروں میں چونکہ زیادہ ترپنجابی نژاد اصحاب کا کنٹرول ہے اس لئےنفرت کی ابتداکا بنیادی جواز یہی تراشا جاتا ہے اور اسی کا شاخسانہ ہے کہ آج پنجابی مزدوروں، ہنر مندوں اور تاجروں کو بی ایل اے کے دہشت گرد نشانہ بنا رہے ہیں۔ بلوچستان کے خراب حالات کی دوسری اہم ترین وجہ معاشی استحصال ہے۔ ارباب اختیار و اقتدار، ریکوڈک ،سینڈک اور کان کنی سمیت ایسے تمام منصوبے جنہیں ہم سونے کی چڑیا کہتے ہیں ان میں بلوچستان کے مفادات کی بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دے کر مقامی بلوچ سرداروں، سیاست دانوں سے ملی بھگت کر کے خود تو مالا مال ہوگئے لیکن آمدنی کا ایک ٹکا بھی بلوچستان کے لوگوں کی تعمیر و ترقی، تعلیم، صحت جیسے بنیادی ضرورت کے منصوبوں پر خرچ کرنا گوارا نہیں کیا۔ جس سے احساس محرومی اور استحصال کا تا ثر گہرا ہوتا چلا گیا، عام بلوچ معاشی مواقع میسر نہ ہونے کے باعث ایرانی پٹرول، ڈیزل اور دیگر اشیاء کی اسمگلنگ پر انحصار کرنے لگا، اب یہ کام اسمگلنگ روکنے کی آڑ میں مضبوط ہاتھوں میں چلے جانے سے نفرت کا احساس مزید بڑھنے لگا ہے۔ بلوچ نوجوان، طلبہ و طالبات پنجابی، سندھی نوجوانوں سے زیادہ باشعور اور باصلاحیت ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا نام دنیا بھر میں روشن ہو۔ لیکن بلوچ بیٹوں بیٹیوں کو یہ شکوہ تھا کہ انہیں انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم رکھنے کا واحد مقصد یہ ہے کہ دنیا ان کے اُجلے چہرے نہ دیکھ سکے۔ اب ان کی پہچان کچھ اور ہی بن چکی ہے۔
تربت، گوادر میں جہاں کہیں بھی نوجوانوں سے گفتگو ہوئی ان کا پہلا شکوہ یہی تھا کہ انہیں دنیا سے کیوں کاٹا جارہا ہے؟ وفاق ان سے خوف زدہ کیوں ہے؟ یہ اس وقت کا میراسوال تھا۔ آج تقریباً چار پانچ سال کے عرصے میں سب کچھ ہاتھ سے نکل گیا۔ کسی نے بلوچ نوجوانوں کو قومی دھارے میں لانے کیلئےکچھ نہیں کیا۔ ہم بلوچ کلچر ڈے اور سندھی ٹوپی اجرک کے دن مناتے رہے۔ چند درجن بلوچ نوجوانوں کو بین الصوبائی دورے کراکے اس خوش فہمی میں مبتلا رہے کہ وہ بہل جائیں گے۔ بلوچستان میںصحت کے حوالے سے ہماری سرگرمیاں بنیادی ڈھانچہ تیار کرنے کی بجائے فری میڈیکل کیمپوں تک ہی محدود رہیں۔ پاک فوج کے زیر اہتمام چند مقامات پر ہسپتال تعمیر تو کئے گئے لیکن بلوچستان حکومت کا سول کردار کہیں نظر نہیں آتا۔ تربت میں اس وقت بھی حالات اداروں کے کنٹرول میں نہیں تھے۔ مقامی انتظامیہ دہشت گردوں سے خوف زدہ تھی۔ بی ایل اے کے دہشت گرد طویل پہاڑی سلسلوں میں چھپے بیٹھے تھے، عام تاثر یہ تھا کہ وہاں چڑیا بھی پَر نہیں مار سکتی۔
بی ایل اے کے دہشت گرد کسی بھی وقت پہاڑوں سے اتر کر شہروں کا رُخ کرتے، ”فرینڈلی فائر“ کرکے واپس پہاڑوں میں غائب ہو جاتے تھے۔ ان کا مقامی آبادیوں کے نوجوانوں سے رابطہ بھی قائم رہتا۔ نشان دہی کے باوجود کسی نے نہیں سوچا کہ ان کو کیسے قابو کرنا ہے۔ یہ حکمت عملی کہ تم اپنے گھر خوش ہم اپنے گھر، ناکام ہو چکی۔ اس سے آگے بڑھ کر کچھ سوچنا ہو گا۔ اب چند گمنام فراریوں کے ہتھیار ڈالنے کی میڈیا تشہیر سے کام نہیں چلے گا۔26 اگست کے سیاہ دن پاک فوج کے جوانوں، پنجابیوں سمیت 54افراد کی شہادتیں اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ بی ایل اے کے دہشت گردوں نے باوردی فورس کی شکل اختیار کرکے جنگی صورت حال پیدا کردی ہے۔ ان کی یہ کارروائیاں آس پڑوس، دورکے ممالک کی چھتر چھایہ کے بغیر ممکن نہیں۔
ذرا سوچئے 26 اگست سے ایک دن قبل مودی کا طیارہ یوکرائن سے اُڑتا ہوا افغانستان کے راستے پاکستان کی فضاؤں میں بغیر خیر سگالی پیغام دیئے نحوست کا سایہ ڈالتا ہوا گزر گیا۔ اگلے ہی روز بلوچستان میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی گئی۔ کیا یہ محض اتفاق ہے، ہر گز نہیں۔ بھارت کو ابھی تازہ تازہ بنگلہ دیش میںکاری زخم لگا ہے ایسے میں بلوچستان میں خون ریزی کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی ہے، آہ! بلوچستان
واپس کریں