دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
شادی سے قید تنہائی تک
عرفان اطہر قاضی
عرفان اطہر قاضی
ملکی سیاسی صورت حال میں ایک بار پھر اچانک بدلاؤ پر یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے کہ ’’دشمن مرے تے خوشی نہ کریئے سجناں وی مر جاناں‘‘۔ بانی پی ٹی آئی کی جنگجویانہ سیاسی جدوجہد کا آخری مگر افسوس ناک باب لکھا جارہا ہے کہ سیاست میں منہ سے نکلا لفظ کبھی حرف آخر تصور نہیں کیا جاتا۔ سیاست دان اپنی نظریاتی فکر و سوچ کے مطابق عوام کے دلوں کوگاہے گاہے گرماتے رہتے ہیں۔ انہیں جوشیلے انقلابی نعروں سے ورغلاتے ہیں اور موقع پر خود میدان چھوڑ کر اپنے پیچھے بے آسرا چھوڑ جاتے ہیں۔ یہ وہی جوشیلے جاں فروش کارکن ہوتے ہیں جو آنسو گیس، لاٹھی چارج اور اپنے سینے پر گولیاں تک کھاتے ہیں مگر کوئی لیڈر ان گمنام شہداء کی قبروں پر فاتحہ بھی پڑھنے نہیں جاتا۔ جب انقلابیوں کی جان کو بن آتی ہے اور میڈیا پر شور شرابہ برپا ہوتا ہے کہ شہداء کے لواحقین کے ہاں تعزیت ہی کر آئیں تو یہ دھکا اسٹارٹ مذکورہ سیاست دان کالے شیشوں والی بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھ کر ان کے گھروں میں جاتے ہیں اور قومی خزانے سے ایک ایک کروڑ روپے کے چیک تقسیم کرکے بیان داغتے ہیں کہ ہم شہداء کے لواحقین بیوہ، بچوں کو کسی صورت اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔ کچھ غیر سیاسی خواتین بھی ان سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالتی نظرآتی ہیں۔ کاش! کوئی لاٹھی، گولی چلنے سے پہلے اپنی اَنا، ضد، ہٹ دھرمی یا خود ساختہ انقلاب برپا کرنے کی کھوکھلی سوچ کو ایک طرف رکھ کر تاریخ کی ورق گردانی کر لیتا کہ ایسی کسی بھی کوشش کا انجام و اختتام مذاکرات کی صورت میں ہی ممکن ہوتا ہے۔ ایک اچھا، کامیاب، ذہین سیاست دان ہمیشہ مذاکرات کی میز پر بازی جیت کر اٹھتا ہے۔ مجھے تو بانی پی ٹی آئی کی پوری سیاست میں دور دور تک کوئی ایسی سوچ یا لمحہ نظر نہیں آتا کہ وہ کبھی سنجیدہ سیاسی ڈائیلاگ میں سیاست دانوں کے ساتھ براہ راست شریک گفتگو ہوئے ہوں۔ اسلام آباد کے ”تاریخ ساز“ فلاپ دھرنے کے دوران بھی بانی پی ٹی آئی کنٹینر پر بیٹھے ”بڑے صاحب“ کی کال کے منتظر رہے اور اپنی بی ٹیم کو ہی حکومت کے ساتھ غیر سنجیدہ مذاکرات کے لئے بھیجا۔ جس کی سوچ ہی صرف ایک نکتے، میں ’’نہ مانوں کی پالیسی‘‘ پر مرکوز تھی یہ منظر سب نے دیکھا کہ بانی پی ٹی آئی کو ”بڑے صاحب“ کی کال آئی۔ ہنستے مسکراتے، ہشاش بشاش گاڑی میں بیٹھے جن سے مذاکرات کی خواہش تھی اللہ نے وہ پوری کردی۔ معذرت کے ساتھ، خان کی سیاست ”بڑے گھر“ سے شروع اور وہیں پر ختم ہو رہی ہے۔ آج اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ فیض حمید کیس کی صورت ان کی جان پر بن آئی ہے تو اس نازک ترین لمحے تک پہنچنے میں بھی خود بانی پی آئی اور ان کی بیگم کا مشترکہ کردار ہے کہ جب ہم یہ لکھتے تھے کہ پیرو مرشد کی اس جوڑی کو جو راتوں رات الہام ہوتے اور صبح اٹھتے ہی ایسے ایسے چمتکار ہونے لگتے تھے جو جیتی جاگتی آنکھوں نے نہ پہلے کبھی دیکھے تھے نہ آئندہ دیکھیں گے تو عاشقان عمران ہمارا مذاق اُڑایا کرتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ بشریٰ بی بی بہت طاقت ور روحانی قوت رکھتی ہیں تو ہم انہیں قائل کرنے کیلئے دلیل دیتے تھے کہ ہمارا بھی بڑے بڑے پیروں سے تعلق واسطہ پالا پڑتا رہا ہے۔ ہمیں تو دور جدید میں دور دور تک ایسی کوئی شخصیت نظر نہیں آتی کہ جس کی روحانی قوت سے کوئی کرشمہ رونما ہو جائے مگر عاشقوں کے کیا کہنے، خیر ہینڈ سم بوائے کی کہانی کو روحانی بیگم نے انجام تک پہنچا دیا ہے جس پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے کہ ایک بھلے مانس خان کو اس پیری مریدی نے کیا سے کیا بنا دیا ہے۔ روحانی بیگم کے سارے چلّے اُلٹے پڑ چکے ہیں۔ ہم بچپن میں سنا کرتے تھے کہ فلاں بابا اُلٹے مصلے پر بیٹھ کر ایسے ایسے کالے کلمات پڑھتاہے کہ جس پر اس کا جادو اثر کرتا ہے اس کا بھٹہ ہی بیٹھ جاتا ہے۔ پھریہ بھی سننے میں آتا تھا کہ اس بابے پر مصلّہ اُلٹا پڑ گیا۔ وہ بہکی بہکی باتیں کرتا، گلی محلوں میں گھومتا رہتا ہے۔ لوگ اسے سودائی (دیوانہ) کہتے آوازے کستے رہتے تھے۔ یہ مناظر ہم نے خود دیکھے ہیں۔ یہ روحانی دنیا بڑی عجیب ہے، یہاں خال خال ہی اللہ والے ملتے ہیں۔ دور جدید کے پیرو مرشد کی یہ کہانی اب اس بات پر اٹکی ہوئی ہے کہ دونوں کی جان خلاصی کیسے ہو؟ اسی بات پر تو پی ٹی آئی کے بڑے بڑے عامل کامل بابے، اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے پاس پہنچے ہیں اور چائے کی پیالی میں سول نافرمانی کے نام پر جو طوفان برپا کیا جارہاہے کہ خان کے دو مطالبات 9مئی،26 نومبر کے واقعات کی جوڈیشل انکوائری اور پی ٹی آئی کے اسیر رہنماؤں و کارکنوں کی رہائی پر مذاکرات کرو۔ سچ تو یہ ہے کہ غیب کا علم صرف اللّٰہ ہی جانتا ہے کہ پی ٹی آئی کے ان عامل کامل مذاکراتی بابوں کے دلوں میں خان کی محبت جاگ رہی ہے یا وہ خود اپنی عزت اورسیاست دونوں بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شواہد اس بات کی واضح نشان دہی و امکانات ظاہر کررہے ہیں کہ فیض حمید کیس کا فیصلہ آتے ہی خان اوران کی روحانی بیگم کی پارٹی کے ساتھ ساجھے داری کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹنے والی ہے ۔ فیض حمید، روحانی بیگم اور پچاس سیاست دانوں پر مشتمل نیٹ ورک کی یہ داستانیں پڑھتے جائیں گے اور سوچیں گے کہ خان کے ساتھ تاریخ کا سب سے بڑا دھوکہ ہوگیا ہے مگر ایسا نہیں۔ یہ سب کچھ ایک طے شدہ ترتیب وار روحانیت کے نام پر بچھایا گیا ایک جال تھا۔ شادی سے قید تنہائی تک ایک سنسنی خیز کہانی جلد منظر عام پر آنے والی ہے۔
واپس کریں