عرفان اطہر قاضی
امریکہ ، اسرائیل گٹھ جوڑ کے نتیجے میں عراق کے صدر صدام حسین کو کبھی نہ ملنے والے ایٹمی مواد رکھنے کے ناکردہ جرم میں پھانسی د ے دی گئی اور لیبیا کے لیڈر معمر قذافی کو درد ناک انجام تک پہنچانے کے بعد عرب دنیا کے تیل کے وسیع ذخائر پر قبضہ کرکے 1974 ءکی لاہور اسلامی سربراہی کانفرنس میں بننے والے اسلامی بلاک کے تمام بڑے ستونوں کو ایک ایک کرکے گرا دیا گیا۔ تیل بم مکمل طور پر ڈی فیوز ہوگیا۔ پاکستان کے ایسے تمام سچے دوست جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ مل کر اسلامی بم کی بنیاد رکھی، مالی و اخلاقی مدد کی، انہیں صفحہ ہستی سے مٹا کر دنیا کے سامنے عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔ درمیانی عرصہ میں رونما ہونے والے واقعات میں امت مسلمہ کی مذہبی و سیاسی شخصیات کو قتل کرانے، اسلامی ممالک میں حکومتوں کے ہٹانے ، بنانے اور انہیں امریکہ کے زیر اثر لانے کی تفصیل میں جائے بغیر آپ اپنے چاروں اطراف نظر دوڑائیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ سعودی عرب، ایران اورپاکستان کے سوا تمام عرب و خلیجی ممالک اسرائیل کو تسلیم کرچکے ہیں۔ امریکہ کی گریٹ گیم میں آخری رکاوٹ ایران اور پھر پاکستان ہی تو ہے۔ امام خمینی کے انقلاب کے بعد ایران دنیا میں واحد ملک ہے جو امریکہ اور اسرائیل کی اس گریٹ گیم کے خلاف مزاحمت کار کے طورپر فلسطینیوں کی حمایت میں بظاہر فرنٹ لائن پر جنگ لڑ رہا تھا۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے کامیاب و تاریخی دورہ پاکستان کے فوراً بعد ان کا ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہونا اور نماز جنازہ کے اگلے روز حماس سربراہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت یکے بعد دیگرے رونما ہونے والے دو ایسے اہم عالمی واقعات ہیں جن سے پُوری دنیا کا امن خطرے میں پڑ چکا ہے، ان واقعات نے ایرانی حکومت کی انتظامی و دفاعی کمزوریوں کا بھی پول کھول دیا ہے۔ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی اپنی انتہا کو چھو رہی ہے۔ ایران کا اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا بدلہ لینے کا اعلان اور عالمی طاقتوں کا اس پر شور شرابہ بادی النظر میں تو چائے کی پیالی میں ایک طوفان ہی نظر آتا ہے۔ ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ ایران کسی قسم کا بدلہ لے سکے۔ عالمی تناظر میں خطے کے بدلتے حالات کا بغور جائزہ لیں، سعودی عرب پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اپنی جان کو خطرہ محسوس کررہے ہیں پاکستان کی مغربی سرحد پر افغان طالبان کی سرپرستی میں خوارج کی کارروائیاں بڑھتی جارہی ہیں، اس حوالے سے امریکہ اور اس کے اتحادی بشمول نیٹو ممالک کی خاموشی اور پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تنہا چھوڑنے پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب امریکہ اور نیٹو فوجیں افغانستان میں جدید ترین اسلحہ، گولہ بارود، ٹینکوں، توپوں، بندوقوں کے ساتھ اربوں ڈالر چھوڑ کر بھاگ رہی تھیں تو کسی ملک یا اقوام متحدہ نے یہ سوال کیوں نہیں اٹھایا کہ یہ سب گولہ بارود کس آگ کو ہوا دینے کے لئے چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں؟ اگرچہ امریکہ سمیت دنیا کا کوئی ملک اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے اورافغان طالبان انتظامیہ کو تسلیم کرنے کو بھی تیار نہیں۔ قطر میں ہونے والے مذاکرات میں یہ سوال کیوں نہیں اٹھایا جاتا کہ پاکستان کے خلاف یہ اسلحہ ، گولہ بارود کسی بھی صورت استعمال نہیں ہونا چاہئے لیکن جب اپنے ہی سابق وزیراعظم خان اور ان کے چہیتے سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید جو کابل ایئر پورٹ پر چائے کا کپ ہاتھ میںتھامے مسکراتے تصویر میں نظر آرہے تھے اور مذکورہ دو شخصیات افغانستان کی آزادی کا جشن مناتے ہوئے افغانیوں کو آزادی مبارک کے پیغامات دے رہی تھیں تو سمجھ جانا چاہئے تھا کہ دال میں کچھ تو جس کی پردہ داری ہے۔ پھر انہی گنہگار آنکھوں نے سوشل میڈیا پر کور کمانڈر ہاؤس پشاور کے سامنے جشن آزادی کے موقع پر گھیراؤ کا منظر بھی دیکھا ۔ شواہد تو یہ ہیں کہ یہ سارا کھیل خیبرپختونخوا میں موجود طالبان کے زیر اثر افغانیوں نے پیرومرشد کی خوشنودی کے لئے رچایا تھا۔ ہم نے 9 مئی کے ایسےہولناک واقعات بھی دیکھے ہیں کہ ہمیں دشمنوں کی ضرورت ہی نہیں۔ ہمارے اندر ہی میر جعفر و میرصادق چھپے بیٹھے تھے جو ایک بڑی سازش کے تحت عوامی جذبات کو بھڑکا کر فوجی قیادت کا تختہ اُلٹنے کی کوشش کررہے تھے بلکہ ان کے عزائم کچھ اور ہی تھے۔ تانے بانے جوڑیں تو اس سازش کی جڑیں بڑی گہری نظر آتی ہیں۔ گریٹر اسرائیل اور امریکہ کی گریٹ گیم کو سمجھنے کی کوشش کریں، امریکی اور نیٹو افواج کے اچانک افغانستان سے فرار کے بعد یوکرائن جنگ کا نیا محاذ کھول کر روس کواس جنگ میںانگیج کردیا جاتا ہے پھر غزہ پر اسرائیل کی چڑھائی شروع ہوتی ہے یہ دونوں واقعات ایک ہی سلسلے کی مختلف کڑیاں ہیں۔ روس کو یوکرائن جنگ میں الجھا کر فلسطینیوں کی نسل کشی کرکے ایران کے لئے روس کی دفاعی سپلائی لائن کاٹ دی جاتی ہے۔ مرحلہ وار ایرانی و حماس قیادت کو نشانے پر لینا ایک ہی کھیل کا حصہ ہے کہ روس اور چین کا علاقے میں بڑھتا ہونااثر رسوخ مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔ بات جب چل نکلی ہے تو پھر پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور سی پیک تک بھی آئے گی۔ افغان طالبان ہوں یا پاکستانی ، بی ایل اے ہو یا دیگر دہشت گردتنظیمیں، سب اسی عالمی کھیل کے کردار ہیں اور اب وقت آگیا ہے کہ تاریخ کے آئینے میں اس گریٹ گیم کی حقیقت کو سمجھاجائے اور اس کا حصہ بننے والے کرداروں کو ان کے انجام تک پہنچایا جائے۔ تاریخ کیا کہتی ہے اس سے سبق سیکھنا ہی دانش مندی ہے۔ تاریخی حقائق پر مبنی سازش کی جڑیں بہت گہری ہیں۔(جاری ہے)
واپس کریں