دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
انقلاب تو دم توڑ گیا
عرفان اطہر قاضی
عرفان اطہر قاضی
اسلام آباد میں بیلا روس کے صدر کی قیادت میں اعلیٰ ترین وفد کی آمد پر انقلابی و انتشاری سیاست کے نتیجے میں تین دن تک پوری پاکستانی قوم کو یرغمال بنائے رکھنا، حالات کی نزاکت و سکیورٹی اقدامات کے تحت وفاقی دارالحکومت میں فوج کا طلب کیا جانا، شر پسندوں کو دیکھتے ہی موقع پر گولی مار دینے کا حکم، بانی پی ٹی آئی کو اڈیالہ جیل میں تحریک انصاف کے رہنماؤں کی بار بار منانے، صبرو تحمل اپنانے کی ناکام کوششیں، ڈی چوک کے متبادل مقام پر انتشاریو ں کو پڑاؤ کی سہولت دینے کی حکومتی پیشکشیں اور اس دوران بشریٰ بی بی کا اپنے مجازی خدا کی ہدایات کو تسلیم کرنے سے انکار اور ڈی چوک پر انقلاب برپا کرنے پراصرار، گنڈا پورپر بی بی کا عدم اعتماد اور لشکر کشی کے دوران انقلابیوں کو گنڈا پور کی کڑی نگرانی کی ہدایات کہ وہ کہیں پھر میدان چھوڑ کر بھاگ نہ جائیں۔ انقلابیوں کا گنڈا پور کی گاڑی کا گھیراؤ، پتھراؤ، وضو کرنے کی اجازت تک نہ دینا اور آ پا انقلابی کا کبھی خود لشکر کو لیڈ کرنااور کبھی گنڈا پور کو گاڑی آگے لگانے کا حکم دے کر خودتعاقب کرنا، انقلابی و روحانی بی بی کا لشکریوں کے جذبات کو ابھارنے کیلئے تقاریر میں اسلامی ٹچ، تحریک کے ان مناظرکے بعد انقلاب تو ڈی چوک میں وڑ گیا۔ قیدی نمبر804 سمیت 9 مئی کےواقعات میں ملوث کوئی ایک بھی ملزم رہا نہ ہوسکا۔ ویسے توانقلاب برپا کرنے اور انقلابیوں کی منجی ٹھوکنے کے بارے ہماری تاریخ سبق سیکھنے کا درس دیتی ہے کہ ریاست سے زیادہ کوئی طاقت ور نہیں ہوتا۔ ریاست جس کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے اس کا ہی کلہّ مضبوط ہوتا ہے۔ قیدی نمبر804کی رہائی کے مطالبے پر جنم لینے والی مارو یا مر جاؤ تحریک کے نام پر پورے نظام کو لپیٹنے کا گھناؤنا کھیل، تین رینجرز، دو پولیس اہلکاروں کی شہادت، درجنوں کے زخمی ہونے، مظاہرین کی متنازع ہلاکتیں، قومی املاک و معیشت کا اربوں روپے روزانہ کی بنیاد پر کباڑا کرنے کے بعدانقلاب اپنے پیچھے کئی سازشی داستانیں، ڈرائنگ روموں کی کہانیاں چھوڑگیا۔ بی بی انقلابی اور گنڈا پور،انقلابیوں کو ڈی چوک میں لاٹھیاں، ربڑ کی گولیاں کھاتے ، آنسو گیس کی شیلنگ برداشت کرتے میدان میں ایسے چھوڑ کر بھاگے کہ شکست خوردہ انقلابی اسلام آباد کی سڑکوں پر بے سروسامانی کے عالم میں تتر بتر ہوتے دھر لئے گئے اور درجنوں گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں، بطور مال غنیمت بحق سرکار ضبط کرلی گئیں۔ انقلابیوں کی واحد نشانی مرکزی کنٹینر کو آگ لگا دی گئی۔ گویا کہ علامتی طور پر دوسروں کے گھروں کو آگ لگانے والوں کا اپناہی گھر جل گیا ۔ بانی پی ٹی آئی اڈیالہ جیل میں بیٹھ کر پوری قوم کو یرغمال بنانے کے عوض اپنی رہائی کے منتظر، ہاتھ ملتے رہ گئے۔ تادم تحریر انقلابی و انصافی کارکن جیلوں میں بند ہیں۔ ان کی مفرور لیڈر شپ اپنی محفوظ آرام گاہوں میں خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی ہے جبکہ گنڈا پور یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ دھرنا ابھی جاری ہے۔ آپا انقلابی نے اپنی بچگانہ سیاست سے خان کی سیاسی منجی بھی ٹھوک کر رکھ دی۔
اب دیکھنا ہوگا کہ انقلابی انصافی، بھائی! خان کی تازہ ترین سیاسی ناکامی کا کیا جواز گھڑتے ہیں کہ ان کا کو ّا تو ہمیشہ سے ہی چٹا رہا ہے۔ ڈی چوک پر لشکر کشی کے اختتامی مناظر، لٹے پٹے قافلے کاڈراپ سین یہ تھا کہ ایک مایوس انقلابی گنڈا پور اور بی بی کو ایسے القابات، الزامات سے نواز رہا تھا کہ وہ ناقابل بیان ہیں، تہذیب اسی کو کہتے ہیں کہ اپنے گندے کپڑے بیچ چوراہے نہیں دھونے چاہئیں۔ ڈی چوک انقلاب کی ناکامی پس پردہ کہانیوں، افواہوں نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ آئندہ ہفتوں، مہینوں بعد خیبرپختونخوا کی انقلابی و لشکری سیاست میں بہت بڑا ڈینٹ پڑنے والا ہے۔ بڑی تبدیلیوں کی نشانیاں واضح ہیں۔ پی ٹی آئی کی موجودہ وکلاءقیادت کا دھڑن تختہ ہو چکا اور خیبرپختونخوا کی سیاسی قیادت ایک دوسرے سے دست و گریبان ہو کر بانی پی ٹی آئی کیلئے نت نئے مسائل پیدا کررہی ہے۔ اب وہاں سے کوئی انقلاب اٹھے گا نہ بشریٰ بی بی خیبرپختونخوا کے نوجوانوں کو دوبارہ اسلام آباد لشکر کشی پر اُکسا سکیں گی۔ اس انقلاب کی ناکامی، گرفتاریوں کے بعد اعلیٰ عدلیہ ، سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی چیمپئن تنظیموں، سوشل میڈیا واریئرز کو سوچنا ہوگا کہ سیاسی و شخصی اظہار رائے کی آزادیوں کے نام پر آئے دن انتشار پھیلا کرایک منصوبہ بندی کے تحت انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالنے، نظام حکومت و زندگی مفلوج کرنے کی یہ کوششیں کیونکر جاری رکھی جاسکیں گی۔ پُر امن احتجاج کے نام پر مسلح جتھوں کا وفاق پر حملہ آور ہو کر سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے بعد اسلام آباد کی سڑکوںپر گندگی پھیلا کر لاشوں کی تلاش میں ہسپتالوں میں جعلی ویڈیوز بنانے کیلئے مارے مارے پھرنا اور سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کرکے اپنی سیاسی ناکامی و بدنامی کو چھپانے کی کوششیں کرنااور پھر عدل و انصاف کے نام پر ضمانتیں لے کر رہا ہو جانا کہاں کا قانون، کہاں اس کی عمل داری ہے، اب تو لشکریوں کو روکنے کی کوئی قانونی تدبیر ہونی چاہئے۔ اصلاح احوال کے لئے تجویز ہے کہ لشکریوں کی گاڑیوں، موٹر سائیکلوں کی صورت جو قیمتی مالِ غنیمت ہاتھ لگا ہے اسے نیلام کرکے رقم شہید و زخمی رینجرزو پولیس اہلکاروں میں تقسیم کر دی جائے اور جیلوں میں بند انقلابیوںکی سیاسی تعلیم و تربیت و اخلاقیات کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔ قوم کے لئے خوش خبری یہ ہے کہ ناکام انقلاب کے بعد پاکستان اسٹاک ایکس چینج 100 انڈیکس نے ایک لاکھ پوائنٹس کی تاریخی حد پارکرکے نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ آج کا پیغام یہی ہے کہ
ذرا نم ہو تویہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
واپس کریں