عرفان اطہر قاضی
بڑھاپے کو اسی لئے’’ سٹھیاپا ‘‘کہتے ہیں کہ انسان کہنا کچھ چاہتا ہے ،کہہ کچھ جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی امریکی صدر جوبائیڈن کے بیان سے ہوا۔ بابا جی! ہمیں سمجھانا کچھ چاہتے تھے لیکن بڑھاپے کی سوئی پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر جا اٹکی اور اب ہم اس بیان پر ایسے باؤلے ہوئے جارہے ہیں کہ جیسے امریکہ نے ہم پر کوئی بم گرا دیا ہو۔ ذرا ٹھنڈے دماغ سے اس بیان اور اس کے بعد امریکی محکمۂ خارجہ اور وائٹ ہاؤس کے ترجمانوں کی یکے بعد دیگرے وضاحتوں کا جائزہ لیں تو سمجھ میں آجائے گی کہ بزرگوار جوبائیڈن اس بڑھاپے میں پاکستان کے جذباتی عوام کے بے ترتیب ہجوم اور سیاست دانوں کے غیر ذمہ دارانہ رویے بارے کیا کہنا چاہتے تھے۔ جب امریکی صدر یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام بے قاعدہ یا بے ترتیب ہے اور پاکستان کے بے ترتیب یعنی بغیر کسی سمت چلنے والے ہجوم کو دنیا کی خطرناک ترین قوموں میں شمار کرتے ہیں تو اس پران عقل کے اندھوں کا ماتم کرنا تو بنتا ہے لیکن اس سے پہلے کسی کو اپنے گریبان میں بھی جھانکنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو اسلامی دنیا کی واحدایٹمی قوت تو بنا دیا ہے، کیا ہم اس نعمت کے قابل بھی تھے یا نہیں؟ یقینا ہمیں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ہمارے دفاعی ادارے ایٹمی پروگرام کو اپنے سینے سے لگائے مضبوط آہنی حصار میں لئے ہوئے ہیں۔
جہاں تک اس بے ترتیب ہجوم نما گروہوں میں تقسیم قوم کا تعلق ہے تو بزرگوار جوبائیڈن کو اصل خطرہ اس پُرتشدد جذباتی ہجوم سے ہے جو کسی بھی وقت کہیں بھی کوئی غلط بٹن دبا کر بڑی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔ جب امریکی ترجمان اپنے صدر کے بیان کی بار بار وضاحت کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ ہمیں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام محفوظ ترین ہے اور امریکہ پاکستان کو مستحکم و خوش حال دیکھنا چاہتا ہے تو بات سمجھ آجانی چاہئے کہ امریکی لاکھ ہماری پالیسیوں سے اختلاف کریں اور ہم حکومتوں کے بننے گرنے میں ان کے کردار پر انگلیاں اٹھائیں، امریکی سازش کے بیانیے پر اپنی سیاست کی اونچی دکان پر پھیکا پکوان پکائیں لیکن یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ امریکہ کے بغیر ہماری سیاست چلتی ہے نہ ہی معیشت۔ اسی لئے تو بزرگوار بائیڈن صاحب فکر مند ہیں کہ یہ بے ترتیب قوم جب گروہ در گروہ تقسیم ہوتی جائے گی اور ہر ایک گروہ کی منطق اور سوچ ایک دوسرے سے الگ ہوگی ،اس میں انتہاپسندی کا عنصر ہر آنے والے دن بڑھتا ہی جائے اور اس میں کمی کا کوئی امکان بھی نظر نہ آتا ہو اور امریکیوں کو یہ بھی شعور ہوکہ جب کوئی قوم انتہا پسندانہ سوچ، پُرتشدد ذہنیت اور جذبات میں اندھی ہو جاتی ہے تو کس طرح جتھوں کی شکل میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے پر حملہ آور ہوسکتی ہے۔ امریکی صدر یہ بھی جانتے ہیں کہ اقتصادی و معاشی طور پر غیر محفوظ ”خطرناک قوم“ کا ایٹمی پروگرام ان کی سوچ سے کہیں زیادہ محفوظ ہاتھوں میں اور بھارت کا ایٹمی پروگرام پاکستان کے مقابلے میں کتنا غیر محفوظ ہے لیکن بھارت کا معاشی طور پر مضبوط ہونا ہی اس کی ایٹمی خامیوں پرپر دہ ڈال دیتاہے۔
ہمارے ماضی قریب کے وزیراعظم خان کو تو اتنی بھی توفیق نہیں ہوئی تھی کہ بھارت سے غلطی سے چلنے والا ممکنہ طور پر ”پھوکا“ ایٹمی میزائل جب پاکستان کی حدود میں آگرا تو بین الاقوامی سطح پر بھارت کے خلاف کوئی آواز ہی اٹھا سکتے۔ اُب خان ، جب سے اقتدار سے ”طلاق“ ملی ہے سڑکوں پر باون سے زائد دھواں دھار جلسے، ضمنی انتخابات میں فرد واحد کی آٹھ نشستوں پرایک میں شکست7 پر معمولی ووٹوں کے فرق سے کامیابی کے بعد قومی اسمبلی میں جانے سے انکار، آبائی نشست میانوالی سے نااہلی پر عوام کے اربوں روپے سے انتخابی عیاشی کے نتیجے میں ” لونگ مارچی“ کے باوجود اداروں اور عدم اعتماد کی صورت قائم و دائم اتحادی حکومت کے خلاف ڈٹے کھڑے ہیں تاہم اب بات اقتدار سے آگے نکل چکی۔ اب وہ وزیراعظم کو آرمی چیف کی تقرری، انتخابات کی تاریخ پر مذاکرات کا پیغام بھی بھیج چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ لانگ مارچ سے قبل ڈوبتی تیرتی ہچکولے کھاتی معیشت ایک بار پھر بھنور میں کیوں پھنستی جارہی ہے اس سے آگے صرف ڈوبنا ہی باقی رہ گیا ہے۔ بزرگوارم بائیڈن کی بات ذہن نشین کرلیں کہ وہ پاکستانی ہجوم کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟
اس غیر سیاسی کالم کا مفہوم گہرائی سے سمجھیں، ہم رہیں نہ رہیں کاتبِ تقدیر کا لکھا کوئی نہیںٹال سکتا۔ متحد افراد ہی زندہ قوم کہلاتے ہیں، زندہ قومیں بے ترتیب جذباتی ہجوم نہیں ہوتیں، بس اتنا یاد رکھیئے کہ اگر اس بار ہیلی کاپٹر موٹرو ے پر اترے تو خالی ہاتھ واپس نہیں جائیں گے۔ حضور! اب بھی وقت ہے ہوش کے ناخن لیں۔
واپس کریں