دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ہُنڑ ساڈیاں کیریاں عیداں
عصمت اللہ نیازی
عصمت اللہ نیازی
اپنی آنکھوں سے عید چاند دیکھنے کا جو طلسم تھا وہ شاید پرانی نسل کے ختم ہونے تک ہی قائم رہے کیونکہ نئی نسل تو ہر چیز " گوگل" سے ڈھونڈ نکالتی ہے اور اب رہی سہی کسر "جی پی ٹی چیٹ" نے پوری کر دی ہے۔ لیکن رمضان کی آخری افطاری کے وقت سب لوگوں کی نظریں ایسے آسمان پر ٹِکی ہوتیں جیسے کسی کا محبوب ایک سال بعد گاؤں وآپس لوٹ رہا ہو اور کوئی دوشیزہ بار بار دیوار سے گاؤں کو آنے والی پگڈنڈی کو بے قراری سے دیکھتی ہے۔ کچھ ایسا ہی ماحول عید کا چاند دیکھنے کیلئے گھر کے مرد و خواتین کا ہوتا جو سب اپنے گھروں سے باہر آ کر اکٹھے کھڑے ہو جاتے، خاندان میں جو شخص سب سے پہلے آسمان پر چاند کو دیکھ لیتا سب اُسکی تیز نظر کی تعریف کرتے اور وہ بھی کچھ وقت کیلئے تو پھولے نہ سماتا کہ سب سے پہلے اُس نے چاند دیکھا ہے وہ دل میں ایسے محسوس کرتا جیسے پورے ملک میں صبح عید اُسی کے چاند دیکھ لینے کی وجہ سے ہو گی ۔
بچوں میں عید کی خوشی کی وجہ سے ساری رات نیند اُڑ جاتی اور ماں بار بار کہتی رہتی "نِگو سانسیں سَم پوو ولے عید وی پڑھنی ہمیں" (کم بختو سو جاؤ صبح سب نے عید بھی پڑھنی ہے). لیکن بچے سونے کی بجائے "چھپ چُھڑکی" کھیلنا شروع کر دیتے اور پھر معلوم نہیں رات کے کس پہر تھک ہار کر بستر پر گرتے اور ماں صبح کبھی پیار سے اور کبھی "پَلُوتے نکال کر" ( بد دعائیں) دے کر بڑی مشکل سے اُٹھاتی اور سب بچوں کو باری باری حکم صادر ہوتا کہ سب کو میں اپنے ہاتھوں سے نہلاؤں گی کیونکہ اماں کو سب سے بڑا اعتراض یہ ہوتا کہ کپڑے دھونے والا صابن جو نہانے کیلئے بھی استعمال ہوتا وہ آپ کانوں کے پیچھے، بغلوں سمیت جسم کے مختلف حصوں پر زور سے نہیں "مَلتے" نہیں ان جگہوں پر مَیل جمی رہتی ہے لیکن جب ماں جی خود اپنے ہاتھوں سے نہلاتے ہوئے جسم پر صابن مَلتیں تو اکثر بچوں کی " کُت کُتاڑیاں" (گُدگُدی) نکلتیں ۔
اصل میں بچے اماں کے ہاتھوں نہانے سے اِنہی "کُتکُتاڑیوں" اور دوسرا کانوں کو زور زور سے ملنے کی وجہ سے دوڑتے۔ نہلانے کے بعد اماں جی سب بچوں کو اپنی اپنی باری پر تیار کرتیں اور اس پوری کاروائی میں نئے کپڑے ، سر پر سرسوں کا تیل لگانا، تبت والا پاؤڈر منہ پر لگانا اور پھر آخر پر موچیوں کے ہاتھوں "سائی" کی سِلی ہوئی کھیڑی (جوتی) پاؤں میں پہنا کر اسکی "پِچھڑیں" ٹائٹ کرنا شامل تھا۔ جب سب بچے تیار ہو جاتے تو اِسی دوران ابا جی بھی بن ٹھن کر اپنی پَگ کا "طُرا" لگا چکے ہوتے اور کہتے کہ " چلو پُترو دیر پئی تھینی ہے" (بچو جلدی کرو کہ لیٹ ہو رہے ہیں)۔ اس طرح سب بچے مل کر ابا جی کی قیادت میں نزدیکی مسجد چلے جاتے جہاں بڑوں کے لیے اگلی جبکہ بچوں کیلئے آخری صف مُختص ہوتی۔ عید کی نماز اور پھر مولوی صاحب کی طرف سے خطبہ کے فورآ بعد مسجد میں ہی "جپھیاں" ڈال کر عید مبارک کا سلسلہ شروع ہو جاتا اور واپسی پر گھر آتے ہوئے پورے راستہ میں جاری رہتا۔
گھر پہنچ کر سب سے پہلے ماں جی سب بچوں کا ماتھا چوم کر عید کی مبارکباد دیتی اور پھر آٹے والی سویاں جو کچھ روز قبل گھر میں ہی تیار کی جاتی تھیں اماں جی نے دیسی گھی اور گُڑ کی شکر کے ساتھ بنا کر رکھی ہوتیں جنھیں سب مل کر چمچ اور کانٹے کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہاتھوں کی انگلیوں سے کھایا جاتا اور اس کے بعد "ٹاخوں" والے پستول اور "ڈزیوں" کا تین روزہ سلسلہ شروع ہو جاتا۔ عید کا چاند دیکھنے کا طلسم ، صبح کپڑوں کا نیا جوڑا پہننے کی خوشی اور اماں کے ہاتھوں پکی ہوئی آٹے والی سویوں کا ذائقہ شائد دنیا سے رخصت ہوتے وقت تک منہ میں موجود رہے۔۔
واپس کریں