دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کیا پتنگ بازی ایک جُرم ہے؟
عصمت اللہ نیازی
عصمت اللہ نیازی
پتنگ بازی انسانی تفریح کا ایک ذریعہ ہے جو پوری دنیا میں پایا جاتا ہے ہاں مختلف ممالک اور مختلف اقوام میں اس کے ڈیزائن مختلف ہو سکتے ہیں اگر پتنگ بازی کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو سن 200 قبل مسیح میں اس کا حوالہ ملتا ہے ملتا ہے جب چین میں سپہ سالار ہان سینگ نے دشمن کے ایک شہر کے باہر پڑاؤ ڈال رکھا تھا اور وہ براہِ راست حملہ کا خطرہ مول لینے کے بجائے ایک سرنگ کھود کر شہر میں داخل ہونا چاہتا تھا۔ لیکن اسے یہ اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ اس مقصد کیلئے کتنی لمبی سرنگ کھودنا پڑے گی لہٰذا اس نے پڑاؤ کے مقام سے شہر کی فصیل تک کا فاصلہ ناپنے کی ٹھانی۔ اُس نے جب دیکھا کہ ہوا اس سمت کی ہی چل رہی ہے جہاں وہ سرنگ کے ذریعے حملہ آور ہونا چاہتا ہے اور ہوا کے ساتھ کچھ کاغذ اُڑ کر جا رہے ہیں تو اس نے ایک کاغذ کے ساتھ درخت کے چند تنکے باندھ دیے تاکہ اسے ہوا کا دباؤ حاصل ہو سکے جو اس کے اڑنے میں مدد گار ثابت ہو اور پھر ایک لمبے دھاگے کی مدد سے اسے اڑا دیا۔ جب وہ کاغذ مطلوبہ مقام تک پہنچ گیا تو اُس نے ناپ کر کاغذ کو واپس کھینچ لیا اور اس طرح یہی دنیا کی پہلی پتنگ تھی جو ایک جنگی مقصد حاصل کرنے کے لیے اڑائی گئی تھی۔ اس کے بعد قدیم چین میں پتنگ سازی فوجی استعمال کے لیے کی جانے لگی جس میں فوج کا جاسوسی کا کام بھی تھا۔ اپنے ہی فوجیوں کو ایک پڑاؤ سے دوسرے پڑاؤ تک پیغام رسانی اور اپنے ساتھیوں کو اپنی پوزیشن بتانے کے لیے پتنگیں اڑائی جاتی تھیں اور حیران کن بات یہ ہے کہ یہ پتنگیں چھوٹے ہتھیار تک ایک جگہ سے دوسری جگہ تک لے جاتیں۔ پھر اس کے بعد چین سے پتنگ سازی کا یہ فن کوریا پہنچا اور وہاں بھی ایک جرنیل کی کہانی ملتی ہے جس کی فوج نے آسمان پر ایک تارا ٹوٹتے دیکھا اور اسے برا شگون سمجھ کر میدانِ جنگ سے منہ موڑ لیا۔ جرنیل نے اپنی فوج کا وہم دور کرنے کے لیے سپاہیوں کو بہت سمجھایا لیکن وہ لڑنے کیلئے نہ مانے۔ آخر جرنیل نے ایک ترکیب سوچی کہ اس نے ایک بڑی سی سیاہ پتنگ تیار کی اور اُس کی دُم سے ایک شعلہ باندھ کر رات کے اندھیرے میں اسے اڑایا تو فوج کو یقین آ گیا کہ آسمان سے جو تارا ٹوٹا تھا وہ واپس آسمان کی طرف لوٹ گیا ہے اور یُوں محض ایک پتنگ کے زور پر جرنیل نے اپنی فوج کا حوصلہ اتنا بلند کر دیا کہ وہ لڑائی جیت گئی۔
فوج کے بعد یہ کارگر نُسخہ بدھ راہبوں کے ہاتھ لگا جو بدروحوں کو بھگانے کے لیے عرصہ دراز تک پتنگوں کا استعمال کرتے رہے۔ اس کے بعد پتنگ بازی کا یہ فن چین اور کوریا سے ہوتا ہوا جاپان جا پہنچا تو عوام میں اتنا مقبول ہوا کہ جاپان میں ایک سخت قانون نافذ کر دیا گیا جس کے تحت صرف شاہی خاندان کے افراد، اعلٰی سِول اور فوجی افسران، اور چند مراعات یافتہ معزز شہریوں کو پتنگ اڑانے کی اجازت دی گئی۔ یہ تو تھی پتنگ بازی کی مختصر سی تاریخ اب آتے ہیں موجودہ دور کی طرف جہاں یہ فن ترقی کرتے ہوئے ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ماضی قریب میں پتنگ بازی نے پاکستان میں بھی بہت ترقی کی اور خاص کر بہار کے موسم میں "بسنت" کے تہوار پر لاہور سمیت پورے پاکستان میں لوگ پتنگیں اُڑا کر بھرپور طریقہ سے اس تہوار کو منایا جاتے۔ بسنت کے موقع پر لاہور اور کراچی میں ہزاروں کی تعداد میں بیرون ممالک سے پتنگ بازی کے شوقین حضرات پاکستان آتے اور آج سے چودہ سال قبل اس فن سے پاکستان کو تقریباً پانچ ارب روپے سے زائد کا زرمبادلہ حاصل ہوتا اور اگر اس فن کو انڈسٹری کا درجہ دے کر اس کیلئے کوئی ریگولر پالیسی وضع کر دی جاتی تو اب یہ زرمبادلہ اربوں روپے سے تجاوز کر چکا ہوتا، لیکن افسوس اس ملک کے پالیسی سازوں کے ذہنوں پر جو ہم پر بزور طاقت مسلط کئے جاتے ہیں جن کا اپنا نہ کوئی وژن ہوتا ہے اور نہ ہی سوچ وہ اسمبلیوں میں بیٹھنے والے پالیسی ساز لوگ نہ صرف کسی کے اشارے پر آتے ہیں بلکہ آ کر کام بھی ریموٹ کنٹرول کھلونے کی طرح کرتے ہیں۔
اسی طرح اداروں کے سربراہان بھی چونکہ بغیر میرٹ کے صرف اپنی بات منوانے کیلئے لائے جاتے ہیں لہٰذا اُن سربراہان کی قابلیت بھی صرف جی حضوری ہی ہوتی ہے، چاہے اشارہ کسی ادارہ کی طرف سے ہو یا پھر کسی شخصیت کی طرف سے وہ بغیر سوچے سمجھے فورآ بجا آوری کرتے ہیں۔ بس ان کا کام ہے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہے یہ حکم عثمان بزدار جیسے بکریاں چرا شخص کی طرف سے ہو یا مریم نواز جیسی ٹک ٹاکر ٹائپ خاتون کی طرف سے ہو، اُس نے کہہ دیا کہ پتنگ بازی پر پابندی تو آئی جی پنجاب صاحب نے نے آؤ دیکھا نہ بھاؤ بس پنجاب میں چھاپے شروع ہو گئے اور پولیس کو صرف ایک ہی جرم نظر آنے لگا اور محکمہ کے میڈیا ترجمان کی روزانہ صرف ایک ہی خبر ضلع بھر میں گردش کرتی پھرتی ہے کہ وزیر اعلٰی مریم نواز کے وژن کے مطابق آئی جی پنجاب کے حکم پر ڈی پی او میانوالی کی زیر نگرانی فلاں ایس ایچ او نے اتنے بچے گرفتار کر لئے اور ان کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی۔ اب پورے ضلع میں قتل بھی ختم ہو گئے ہیں، منشیات فروشی بھی ختم ہو گئی ہے، ڈکیتی، راہزنی کی وارداتوں پر بھی پابندی ہے۔ ڈکیت اور راہ زن صوم و صلوٰۃ کے پابند ہو گئے ہیں بس اشتہاری مجرم ہیں تو صرف پتنگ باز بچے جن کے والی بال سمیت تمام کھیلوں پر آہستہ آہستہ پابندی لگائی جا رہی ہے تاکہ سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت اس نئی نسل کو موبائل کے ذریعے سوشل میڈیا پر لگا کر انہیں ذہنی اور جسمانی طور پر اپاہچ کر دیا جائے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ پتنگ بازی کے منفی پہلو ختم کرنے کیلئے کوئی پالیسی بنائی جائے اور اسے کھیل کا درجہ دے کر اس کے کوئی اصول قانون وضع کئے جائیں لیکن یہاں پالیسی ایک ہی بنتی ہے کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔
محترمہ مریم نواز صاحبہ کا تو اس سلسلہ میں اتنا قصور نہیں بنتا کیونکہ ان کے والد محترم نواز شریف کے تین ادوار حکومت میں سے ایک مرتبہ کسی نے غربت کی وجہ سے اپنے آپ کو آگ لگا کر خودکشی کر لی تو جناب نے پابندی لگا دی کہ کوئی شخص اپنی جیب میں ماچس نہیں رکھ سکتا۔ اگر دیکھا جائے تو پتنگ بازی کی بجائے زیادہ اموات تو موٹر سائیکل حادثات کی وجہ سے ہوتی ہیں تو پھر موٹر سائیکل کی سواری پر بھی پابندی لگا کر آئی جی پنجاب صاحب ہر تھانہ کو ایف آئی آر درج کرنے کے احکامات جاری کیوں نہیں کرتے۔ جبکہ دوسری طرف ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے ہماری انہی حرکتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بسنت پر ہماری پابندی کی وجہ سے ماضی قریب میں جاپان اور یورپ سمیت پاکستان آنے والے پتنگ بازی کے شوقین افراد کو اپنی طرف مائل کر لیا ہے اور وہ اس سے اربوں ڈالر زرمبادلہ حاصل کر رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے گذشتہ دنوں پنتگ اُڑا کر اس کا افتتاح کیا اور اس تقریب میں اُس کے ساتھ جاپان اور یورپ سمیت دنیا بھر کے پتنگ بازی کے شوقین سینکڑوں افراد بھی موجود تھے۔
رپورٹ کے مطابق پتنگ بازی سے صرف گجرات میں ایک لاکھ تیس ہزار خاندانوں کو روزگار فراہم کیا گیا ہے اور اِن کے ذریعے گجرات کی تقریباً سات بلین ڈالر کی یہ صنعت اگلے سال 12 بلین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ قوم کے بڑے لیڈر کے بڑے وژن کی وجہ سے یہی بھارت چاند پر پہنچ چکا ہے لیکن ہمارے لیڈر اپنے ساتھ ہر وقت پندرہ کیمرہ مینوں کی ٹیم لے کر ٹک ٹاک بنوا کر عوام کو بے وقوف بنانے سے فارغ نہیں ہوتے ۔ یہاں نئی نسل کو کھیلوں کے نئے گراؤنڈ دینے اور نئی جسمانی کھیلیں متعارف کرانے کی بجائے پرانی اور ثقافتی کھیلوں مثلاً بٹیروں کی لڑائی پر پابندی، مرغوں کی لڑائی پر پابندی ، والی بال کے کھیل پر پابندی، پتنگ بازی پر پابندی۔ بس اب گھر سے نکلنے پر پابندی باقی ہے پتہ نہیں وہ کب لگتی ہے ؟؟؟
واپس کریں