دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ریموٹ کنٹرول کھوتے
عصمت اللہ نیازی
عصمت اللہ نیازی
آٹھویں صدی سے تیرہویں صدی کے وسط تک عباسی خاندان نے مسلمانوں پر حکومت کی۔ 786 عیسوی میں جب امور مملکت معروف خلیفہ ہارون الرشید کے ہاتھ میں آئے تو مسلمانوں کی ترقی کا دور شروع ہو گیا ہارون الرشید نے موجودہ عراق کے شہر بغداد میں "بیت الحکمت" کے نام سے ایک جدید اور بہت بڑی لائبریری کا قیام عمل میں لایا جس میں یونان سمیت دنیا بھر سے مختلف زبانوں میں شائع شدہ علوم کی کتب کا عربی میں ترجمہ کر کے رکھوایا۔ اس دور کو روایتی طور پر اسلامی سنہری دور سمجھا جاتا ہے کیونکہ باہر سے جدید علوم آنے کی وجہ سے نئی تحقیق کا آغاز ہوا۔ تعلیمی اداروں میں بھی نئے علم کی تعلیم دی جانے لگی۔ اس دورِ حکومت میں بغداد علم، ثقافت اور تجارت کے عالمی مرکز کے طور پر پروان چڑھنے لگا اس تبدیلی کا اثر اگلے کئی سو سال تک مسلمانوں کی تاریخ میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں جدید علوم پڑھانے سے مسلمان سائنسدان پیدا ہونا شروع ہو گئے جس کے نتیجہ میں آٹھویں سے تیرہویں صدی کے دوران مسلمان سائنسدانوں نے دنیا بھر میں اپنا ایک مقام پیدا کیا اور دنیا کو اپنی تحقیق کے ذریعے کئی ایجادات دیں۔ تعلیمی اعتبار سے ہارون الرشید اور اس کے ایک ایک ڈیڑھ سو سال کا دور اتنا مثالی تھا کہ حکمرانی حاصل کرنے کیلئے عباسی خاندان کی آپس میں جنگ و جدل کے باوجود چار سو سال تک تعلیمی نظام میں یہ تبدیلی قائم رہی لیکن اس کے بعد مسلمانوں کو علم حاصل کرنے کی بجائے ایک خاص طبقہ کے ذریعے سُدھارنے کی تعلیم کا آغاز ہوا جس کی وجہ سے نیکی اور گناہ کا تصور بھی بدل دیا گیا اور اس جامد تعلیمی نظام کی بدولت آج تک دولُو شاہ کے چوہے پیدا کئے جانے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ مجھے گذشتہ چھ سات سو سال سے مسلمانوں میں رائج تعلیمی نظام پر ایک لطیفہ نما قصہ یاد آ رہا ہے جو آپ قارئین کی نذر ہے۔ ایک مرتبہ ایک شخص اینٹیں خریدنے ایک بھٹہ پر گیا اور ایک مزدور سے منشی کے بارے میں دریافت کیا تو مزدور نے کہا کہ منشی صاحب تھوڑی دیر میں آتے ہیں آپ چند منٹ انتظار کر لیں۔ وہ شخص اُس مزدور کے ساتھ ہی کھڑا ہو گیا اور اس کا کام دیکھنا شروع کر دیا جو پانچ عدد کھوتوں پر اکیلا کچی اینٹیں لوڈ کر رہا تھا۔ اُس نے دیکھا کہ ہر خالی کھوتا جو بھٹہ کے اندر سے واپس آتا ہے اور اُس مزدور کے سامنے آ کر خود بخود کھڑا ہو جاتا ہے اور مزدور اس پر پوری اینٹیں لوڈ کر دیتا ہے اور پھر وہ کھوتا بھٹہ کے اندر چلا جاتا ہے۔ یہ ماجرا دیکھ کر مزید تحقیق کیلئے وہ بھی بھٹہ کے اندر چلا گیا اور دیکھا کہ وہاں پر بھی موجود ایک مزدور کھوتوں سے اینٹیں اتار کر خالی کر رہا ہے اور لوڈ کھوتا خود بخود اُسکے سامنے جا کر کھڑا ہو جاتا ہے اور پھر وہ اس پر لوڈ ساری اینٹیں اتار لیتا ہے۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو اُس شخص نے مزید تحقیق کیلئے اینٹیں لوڈ کرنے والے مزدور سے کہا کہ وہ اس کھوتے پر بیس پچیس اینٹوں سے زیادہ نہ لادے۔ جب مزدور نے سو اینٹ کی بجائے صرف پچیس اینٹیں لوڈ کیں تو کھوتا وہاں سے جانے پر تیار نہ ہوا اور تک تک کھڑا رہا جب تک اس پر اینٹوں کا لوڈ پورا نہ کر دیا گیا۔ پھر اندر جا کر جب اس نے ان لوڈ کرنے والے مزدور سے کہا کہ وہ تمام اینٹیں اتارنے کی بجائے بیس اینٹیں اُس کھونے کی پشت سے نہ اتارے اور چھوڑ دے لیکن جب تک تمام اینٹیں اتار نہ لیں گئیں تک تک کھوتا وہاں پر جامد کھڑا رہا۔ یہ ساری صورتحال دیکھ کر وہ شخص بہت متجسس ہوا اور مزدور سے پوچھا کہ کیا یہ کھوتے ریموٹ کنٹرول ہیں تو مزدور نے جواب دیا کہ نہیں یہ کھوتے ریموٹ کنٹرول نہیں بلکہ سدھارے ہوئے ہیں اور جو ان کے ذہن میں ڈال دیا گیا ہے وہ ساری زندگی اُسی پر عمل کرتے ہیں
واپس کریں