دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
امیبڈکر کی نصیحت اور پاکستانی سیاستدان
No image تحریر،افتخار گیلانی: پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال اور اسکے لیڈروں کی پینترہ بازیاں دیکھ کر بھارت کے معروف دلت لیڈر اور دستور ساز کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر بھیم راوٗ امیڈکر کا وہ بیان یاد آتا ہے، جو انہوں نے نومبر 1948 کوآ ئین ساز اسمبلی میں دستور کا مسودہ پیش کرتے ہوئے دیا تھا۔ ان کا کہنا تھاـ: ’’دنیا کا کوئی بھی آئین کامل نہیں ہوسکتا ہے۔ اسکو موثر اور قابل استعداد بنانا، روبہ عمل لانے والے افراد اور اداروں کی نیت اور ہیئت پر منحصر ہے۔ اگر اچھے سے اچھا آئین بھی اگر نااہل اور بے ایمان افراد کے ہتھے چڑ ھ جائے تو بد سے بد تر ثابت ہوسکتا ہے۔اسکو چلانے والے اداروں کے ذمہ داران اگر ذہین، فراخ دل اور بامروت ہوں تو خراب سے خراب تر آئین بھی اچھا ثابت ہوسکتا ہے۔‘‘ ایک تو پاکستان کی مٹی میں ایسا کچھ ہے کہ وہاں کے ادارے، چاہے وہ سویلین سیاسی لیڈروں پر مبنی حکومت ہو، یا صدر، عدلیہ و ملٹری ہو، طاقت ملنے پر بے قابو ہو جاتے ہیں۔ ویسے بھارت بھی اب پچھلے کئی برسوں سے اسی روش پر چل نکلا ہے، مگر پھر بھی اس نے ایک پختہ ‘ ٹھوس اورمستحکم سیاسی نظام قائم کرنے میںکامیابی حاصل کی ہے اور اقتدار کی منتقلی کا عمل نہایت ہی پر امن طریقے سے انجام دیا جاتا ہے۔
اس مستحکم نظام کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بھارت میں اداروں کو ایک دوسرے کے اوپر بھروسہ ہے ۔ فیصلہ سازی ، سیاسی لیڈران ہی کرتے ہیں، مگر ان کو لیتے ہوئے وہ فوج، سیکورٹی، اینٹلیجنس ، عدلیہ کی رائے کو خاصی اہمیت دیتے ہیں۔ سکیورٹی سے متعلق اعلیٰ فیصلہ ساز مجلس کابینہ کی سلامتی سے متعلق امور کمیٹی میں فوج کی تینوں شاخوں اور خفیہ تنظیموں کے سربراہان کا خا صا عمل دخل ہوتا ہے۔ پاکستان میں یہ بھروسہ ہو تو کیسے ہو؟
دسمبر 1988 کو جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے پہلی بار وزارت اعظمیٰ کا عہدہ سنبھالا ، تو ان کو شکایت تھی کہ فوج ان کو جوہری پروگرام پر بریفینگ اور اس کی اصل صورت حال سے آگاہ نہیں کررہی تھی۔جو بطور سربراہ حکومت ان کا حق تھا۔ خیر میں نے سنا اور کہیں پڑھا ہے کہ جب ایک روزراولپنڈی میں جی ایچ کیو کے آپریشن روم میں انکو جوہری پروگرام کی پوری تفصیلات سے آگا ہ کروانے کیلئے بریفنگ کا اہتمام کیا گیا، اور وہ اپنی لیموزین میں جی ایچ کیو پہنچیں تو اس کے دوسرے دروازے سے پاکستان میں اسوقت کے امریکی سفیر رابرٹ اوکلے بھی برآمد ہوئے، جن کو وہ اپنے ساتھ لے آئیں تھیں۔ فوج کے آپریشن روم کا اپنا ایک تقدس ہوتا ہے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے کہ بھارتی وز رائے اعظم اٹل بہاری واجپائی نے بس کرگل اور پارلیمنٹ پر حملہ کے موقعہ پر یعنی دو بار، من موہن سنگھ نے ممبئی حملہ کے موقعہ یعنی ایک بار اور 2016میں سرجیکل اسٹرئیک کے موقع پر موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے آرمی ہاوس کے آپریشن روم کا دورہ کرکے بریفنگ لی ہے۔ ورنہ اسکو سویلین لیڈران کی پہنچ سے دور ہی رکھا جاتا ہے۔ یہ تو مجھے معلوم نہیں کہ آخر بے نظیر بھٹو اتنی زیرک سیاستدان ہوتے ہوئے بھی اتنے حساس کمرے میں امریکی سفیر کو لیکر کیوں وارد ہوئیں؟ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فوج نے پوری بریفنگ ہی بدل دی، اور بس عمومی اور ان ہی نکتو ں کو پیش کیا، جو پہلے سے ہی عوام فورم میں موجود تھے۔
اسی طرح 2001میں پارلیمنٹ اور پھر 2008میں ممبئی دہشت گروانہ واقعات کے بعد واجپائی اور پھر من موہن سنگھ نے فوجی سربراہان کو پوچھا تھا کہ کیا وہ پاکستان کے ساتھ جنگ کیلئے تیار ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان کو بتایا گیا کہ ایمونیشن اور اسٹریٹیجک فیول ریزرو وغیر ہ کے کم ذخائر کی وجہ سے وہ دو ہفتوں سے زیادہ طویل جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔ مگر طے ہوا کہ فوجی افسران سارا ملبہ سیاسی قیادت کے سر منڈھیں گے اور بتائیں گے وہ بالکل تیاری کی حالت میں ہیں۔ اور جنگ کرنے اور بقول انکے پاکستان کو سبق سکھانے کا فیصلہ کرنے کا اختیار سیاسی قیادت کے پاس ہے۔ جبکہ حقیقیت تھی، کہ فوج نے ہی اسطرح کی کسی کارورائی سے معذرت ظاہر کی تھی۔
بانی پاکستان محمد علی جناح کے بعد شاید ہی اس ملک کو کوئی ایسا سیاسی رہنما نصیب ہوا ، جو اسٹیٹس مین تو نہیں ، کم از کم اپنے ملک کیلئے ہی قابل بھروسہ ہونے کا اعزاز حاصل کرسکے۔ گو کہ ذولفقار علی بھٹو اس زمرے میں آتے ہیں، مگر ان کی منتقمانہ سیاست نے انکی شبیہ کو داغدار کرکے ان کی بہت سے خوبیوں پر پردہ ڈال دیا ہے۔ اسی طرح 1997میں جب بھارتی وزیر اعظم اندر کمار گجرال نے اپنے پاکستانی ہم منصب نواز شریف سے نیو یارک میں ملاقات کی، تو کشمیر یا دیگر امور کے بجائے ، جو اہم مطالبہ پاکستان وزیر اعظم نے نہایت ہی زور و شور سے رکھا، وہ یہ تھا کہ بھارتی حکومت دوبئی کے راستے ان کی شوگر مل کیلئے رعایتی نرخوں پر مشینری فراہم کروائے اور ان مشینوں پر میڈان انڈیا کا لیبل نہ لگا ہو۔گجرا ل جب یہ احوال واپسی پر طیارہ میں آف ریکارڈ گفتگو کے دوران یہ شیئر کر رہے تھے، تو اس کے بعد کسی نے بھی بھارتی وزیر اعظم سے کشمیر یا دیگر امور پر سوال پوچھنے کی زحمت نہیںکہ، جبکہ اس سے قبل کئی صحافی ان امور سے متعلق سوالات پوچھنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔
بھارت میں کوئی سیاستدان یہ سوچ بھی نہیں سکتا ہے کہ اگر اس پر پاکستانی خفیہ ایجنسی یا کسی اور ملک کے ادرارے کی مہمان نوازی یا اس کے ساتھ ساز باز کا کوئی صحیح یا غلط الزام لگائے اور وہ اس کے بعد بھی سیاست میں کوئی فعال کردار ادا کرے۔ ایک تو پوری عمر وہ سیاسی طور پر اچھوت بن جائیگا ، اور پھر اسکا مستقل ٹھکانہ ہی جیل بن جائیگی۔ مگر پاکستان میںتہمینہ درانی نے اپنی کتاب My Feudal Lordمیں جب یہ انکشاف کیا کہ وہ اور ان کے سابق شوہر غلام مصطفیٰ کھر کو بھارتی خفیہ ایجنسی راء نے مہمان بنا کے رکھا اور اجمیر درگاہ پر ان کی حاضری میں معاونت کی، اس کے بعد بھی معتوب ہوئے نہ ہی انکا سیاسی سفر ختم ہوگیا۔ تہمینہ درانی شاید اسوقت پاکستان کی خاتون اول ہے۔ شاید ہی اس انکشاف کے بعد کھر اور درانی کے خلاف تفتیش کی گئی ہو۔ کسی بھی عام آدمی کو تو ایسے الزامات کی صورت میں پھانسی پر چڑھادیا گیا ہوتا۔
اسی طرح بھارت میں صدر کا عہدہ سیاست کی معراج سمجھا جا تا ہے۔ اس عہدہ پر منتخب شخص پارٹی سیاست سے اوپر اٹھ جاتا ہے،کیونکہ بھارت میں پارلیمنٹ کی تعریف میں لوک سبھا، راجیہ سبھا کے علاوہ صدر کا دفتر بھی شامل ہے۔ ان تینوں کو ملاکر ہی پارلیمنٹ بنتی ہے، جس کا ایک جز اپوزیشن ہوتی ہے۔ اس عہدے سے فارغ ہونے کے بعد وہ ایکٹو سیاست سے فارغ ہوکر مراعات پر زندگی گذارتا ہے۔ اس عہدے پر فائز شخص اس کے بعد کسی اور عہدے کی تمنا کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔ مگر یہ شاید پاکستان ہی ہے جہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے اور صدردو کشتیوں پر سوار ہوکر ملک کی صدارت اور ایک سیاسی پارٹی کی صدارت بھی کر رہا ہوتا ہے۔ اب اس طرح کا صدر کیسے عوام اور ادراوں میں بھروسہ قائم کروا سکتا ہے ، جوصدر مملکت کی کرسی کے بعد ممبر پارلیمنٹ کے اسٹول پر بیٹھ کر دوبارہ انتخابی سیاست ،جوڑ توڑ اور پینترہ بازی کی سیاست کی صدارت کرتے ہوئے فخر بھی محسوس کر تا ہو۔
بھارت میں وزیر اعظم کو عدالتی استثنا حاصل نہیں ہے۔ مگر اس کے باوجود ملک کی کوئی بھی عدالت کسی بھی وزیر اعظم کے خلاف کوئی بھی ریفرنس یا پیٹیشن سماعت کیلئے منظور نہیں کرتی۔ مختلف اداروں جن میں عدالت یعنی چیف جسٹس، وزیراعظم ، اسپیکر لوک سبھا، دفاعی سروسز یعنی فوجی سربراہ کے دفاتر کے درمیان ایک غیر تحریری معاہدہ ہے، جس کے تحت وہ ایک دوسرے کے عہدے کے وقار کا خیال رکھتے ہیں۔ اس میں اب الیکشن کمیشن کا دفتر بھی شامل ہے۔ اسی طرح میڈیا بھی سیلف سنسر شپ کا عادی ہے۔ اب اگر عدالت میں کوئی سیریس ریفرنس کسی متوقع وزیر اعظم کے خلاف دائر ہو، تو اسکو پارٹی خود ہی اس دوڑ سے الگ کرتی ہے۔ بھارت کے نویں وزیر اعظم کے طور پر نرسمہا رائو کی مدت حکومت میں یعنی 1991ء سے 1996ء تک ایگزیکٹو کے اس اعلیٰ عہدہ کے وقار پر کئی سوالیہ نشان لگ گئے۔ مگر جب تک وہ آفس میں تھے، عدالتیں ان کے خلاف دائر رٹ پٹیشن خارج کرتی رہیں۔
وزیر اعظم ہائوس میں کسی تقریب کے بعد ڈنر کے موقع پر ایک سابق چیف جسٹس صاحب سے میں نے پوچھا تھا کہ اگر وہ ایکٹو ہوتے، تو شاید بابری مسجد بچ سکتی تھی ، تو ان کا کہنا تھا کہ ’’کہ وزیرا عظم جمہوری نظام کا ایک اہم ستون ہوتا ہے۔ حکومت دھونس ، دبائوسے زیادہ وزیراعظم کے اعتماد و اقبال پر چلتی ہے۔ اب اگر آئے دن اسکو کورٹ میں گھسیٹ کر قانونی تقاضوں کے نام پر اسکی بے عزتی کرانی مقصود ہو تو وہ حکومت کب کریگا؟ اور کیا کوئی افسر، سیکرٹری یا دیگر ادارے، اس کو قابل اعتنا سمجھیں گے؟ کیا وہ اسکے احکامات بجا لائیں گے؟ کیا وہ اس انتخابی منشور کو ، جس کی وجہ سے عوام نے اسکو مینڈیٹ دیا ہے، عملی جامہ پہناپائے گا؟ ‘‘ ایک دوسرے سابق چیف جسٹس نے بحث میں شامل ہوتے ہوئے کہا کہ اداروں کا احتساب لازمی امر ہے مگر استحکام کو اس کیلئے قربان نہیں کیا جاسکتا۔دونوں میں ایک طرح کا توازن رکھنا لازمی ہوتا ہے۔ انہوں نے یا د دلایا کہ وزارت عظمیٰ سے ہٹتے ہی نرسمہا رائوکو اراکین پارلیمان کی خرید و فروخت کے الزام پر عدالت کا سامنا کرنا پڑااور انہیں سزا بھی سنائی گئی۔
چیف جسٹس کے عہدے کے وقار کا بھی بھارت کے نظا م میں کس قدر خیال رکھا جاتا ہے کہ جب 2000میں اسوقت کے وزیر قانون رام جیٹھ ملانی نے بنگلور میں ایک تقریب کے دورن چیف جسٹسآدرش سین آنند کے رویہ کی بغیر ان کا نام لئے بالواسطہ شکایت کی تو وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے بذریعہ فیکس فوراً ان سے استعفیٰ مانگا۔ جب تک و ہ واپس دہلی آجاتے، واجپائی نے ان کو وزارت سے الگ کرکے نیا وزیر قانون مقرر کر دیا تھا۔ گو کہ واپسی پر جیٹھ ملانی ، جو خود بھی معروف قانون دان تھے، نے چیف جسٹس سے ملاقات کرکے معذرت ظاہر کی، مگر واجپائی کا کہنا تھا کہ ملک چیف جسٹس کے عہدے کے وقار پر کوئی حرف لانے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ بھارت میں اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری حکومت اور جوڈیشری کے درمیان ایک ایشوبنا ہوا ہے۔ فی الوقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور سینئر ججوں پر مشتمل ایک کولیجیم ، نام سلیکٹ کرکے ، حکومت کو بھیجتی ہے، جو خفیہ اداروں سے کوائف وغیرہ معلوم کرکے صدر کے پاس سفارش بھیجتی ہے، جہاں سے تقرری کا آرڈر جاری ہوتا ہے۔ ایک طرح سے جج ہی ججوں کو سلیکٹ کرتے ہیں۔ جو کسی بھی جمہوری ملک کو جہاں پارلیمنٹ کو فوقیت حاصل ہوتی ہے، زیب نہیں دیتا ہے۔ اس عمل کو صاف و شفاف بنانے کیلئے حکومت نے پارلیمنٹ سے نیشنل جوڈیشل اپوئنٹمنٹ کمیشن بنانے کا ایک قانون پاس کیا تھا۔ جس کے ممبران میں وزیرا عظم، وزیر قانون،حکومت کے نامزد کردہ دو معروف قانون دان، چیف جسٹس اور دیگر جج شامل تھے۔ مگر چند سماعتوں کے بعد ہی سپریم کورٹ کی آئینی بینچ نے اسکو مسترد کردیا۔ حکومت نے بھی اس قانون کو پھر واپس لاگو کروانے کی ضد نہیں کی۔ یہ معاملہ بھارت میں ہنوز موضوع بحث ہے۔
پاکستان میں عدالتوں کو آمر حکمرانوں نے وقتاً فوقتاً استعمال کیا ہے۔ مگر جمہوری حکمرانوں نے بھی کچھ کم کسر نہیں چھوڑی ہے۔ جس طرح وزیر اعظم نواز شریف کے حامیوں نے 1997ء میں چیف جسٹس کے چیمبر اور سپریم کورٹ پر دھاوا بول دیا، کسی بے ضابط ملک میں بھی اسطرح کی حرکت کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ پھر 1998ء میں ایک آرمی چیف کو بیک جنبش قلم معطل کرنا اور پھر ایک سال بعد دوسرے آرمی چیف کو اسوقت معطل کرنا ، جب وہ غیرم ملکی دورہ سے واپس آکر جہاز میں ہی تھا۔ اور اس پر طرہ کہ جہاز کو لینڈ کرنے کی اجازت نہ دینا بس یہی ظاہر کرتا ہے کہ طاقت کے نشے میں چور حاکم دیگر اداروں کو جوتے کی نوک پر رکھ کر ان کی تذلیل کرارہا ہے۔ اسطرح کے حاکم کو پھر حالات کے پلٹتے ہی بدلہ کیلئے بھی تیار رہنا چاہئے۔ بھارت میں 1998ء میں بحریہ کے سربراہ وشنو بھاگوت کو حکومت کے ساتھ اختلافات کی بناپر عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔ ایڈمرل کا ٹائٹل بھی ان سے چھینا گیا۔ اس وقت کے وزیردفاع جارج فرنانڈس نے اپنے چیمبر میں بلا کر حکومت کے فیصلہ سے ان کو آگاہ کیا۔ واجپائی حکومت کی اتحادی پارٹی تامل ناڈو کی آل انڈیا انا ڈی ایم کے پارٹی نے اسکو ایک ایشو بناکر حمایت واپس لیکر حکومت ہی گرا دی۔
پاکستان کے برعکس بھارت میں سویلین حکومتیں اور سیاستدان لاکھ اختلافات کے باوجود ملک کے وسیع تر مفادات کی حفاظت کرتی ہیں۔ پاکستان کے لبرل مدبرین اس سوال پر بس یہ کہہ کر جان چھڑاتے ہیںکہ ان کے ملک میں ملٹری سویلین حکومتی فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ مگر جب سویلین حکمران بھی اقتدار میں آتے ہیں، تو کیا وہ توازن برقرار رکھ پاتے ہیں ؟
پاکستانی سیاستدانوں کو یہ جان لینا چاہئے کہ اگر افغانستان ، ترکی یا عرب ممالک یا کوئی اور ملک ، اگر عدم استحکام کا شکار ہوتے ہیں ، وہ ان کا اندرونی معاملہ ہوتا ہے، مگر پاکستان کا عدم استحکام اس کا اندرونی معاملہ نہیں رہتا ہے، ہم سب اسکی لپیٹ میں آتے ہیں۔ایک غیر پاکستانی شہری کی حیثیت سے اور اس ملک کے خیر خواہ ہونے کے ناطے اس ملک کے سیاستدانوں اور ادراوں کے سربراہوں سے گذارش ہے کہ اب اور زیادہ اپنے آپ کو جگ ہنسائی کا ذریعہ مت بنائو۔ حکومتیں تو آتی اور جاتی ہیں۔ اس پولاریزڈ سیاست سے آپ کیسے کشمیر میں ایک اعتماد کی فضا استوار کروا سکتے ہیں، جہاں اس وقت وہی حالت ہے، جو پاکستان کی1971میں تھی۔ جسطرح پاکستان دولخت ہوا،اسی طرح کشمیر بھی تین سال قبل نہ صرف دولخت ہوا، بلکہ وہاں غالب عوام کا تشخص اور انفرادیت دائو پر لگی ہوئی ہے۔ اور ان کی نظریں اسلام آباد پر ٹکی ہوئی تھیں۔ کشمیر میں احساس سپردگی یا سرنڈر کے زخم پر پاکستانی سیاست اور اسکی پینترے بازیاں مزید گہرا کرکے اس پر نمک اور مرچ چھڑکتی ہیں۔
جمہوی نظام کو چلانے کیلئے توازن برقرار رکھنا ایک لازمی امر ہے اورایک کامیاب جمہورت کیلئے آئین کو چلانے کیلئے امبیڈ کر کی نصیحت پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ جمہوریت کے استحکام کے لئے تمام قومی اداروں کے مابین ہم آہنگی اور ایک دوسرے کے وقار کا لحاظ ضروری ہے۔ تمام اداروں کو اپنے اپنے ڈومین میں رہنا چاہیئے تاکہ کسی کو ایک دوسرے سے شکایات پیدا نہ ہو اور ان کی غیر جانبداری پرانگشت نمائی نہ کی جا سکے۔
واپس کریں