دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان کی خارجہ پالیسی: خدشات اور مشکلات/تنویر شہزاد
No image امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اور بین الاقوامی امور کے ماہر حسین حقانی نے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کو ایسی خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے جو ملک میں سرمایہ کاری لا کر معاشی بحران کے خاتمے میں مدد دے سکے۔ ” پاکستان کی مشکل یہ ہے کہ اس کی درآمدات اور دفاعی تعلقات چین سے وابستہ ہیں جبکہ اس کی برآمدات اور دیگر مفادات امریکہ اور مغرب سے منسلک ہیں۔ اس لیےامریکہ اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات میں پاکستان کو سوچ سمجھ کر ہی فیصلہ کرنا ہوگا۔‘‘
پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے بتایا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اس کی معاشی اور دفاعی ضروریات کو سامنے رکھ کر بنانی چاہیے۔ تاکہ ملک محفوظ ہو، اس کے معاشی مسائل کم ہوں اور غربت کے خاتمے میں مدد مل سکے۔ ”پاکستان میں ہم نے ملکی معیشت کے ساتھ بہت ظلم کیا ، ہم اپنی آمدنی سے زیادہ خرچ کرکے ملک پر قرض مسلط کرتے رہے۔ اب اس کی ادائیگی کے لیے ہمیں دوسروں کے پاس جانا پڑتا ہے۔ خارجہ پالیسی کی بہتری کے لیے ہمیں اندرونی استحکام اور بہتر حکمرانی کی طرف آنا ہوگا۔‘‘
خورشید قصوری کی رائے میں ہم چین کو چھوڑ سکتے ہیں اور نہ ہی امریکہ سے مخالفت مول لے سکتے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات کی تاریخ کافی پرانی ہے، ہم اس کے اتحادی رہے ہیں۔ افغانستان پر روسی قبضے اور پھر نائن الیون کے بعد بھی کافی عرصے تک پاک امریکہ تعلقات بہتر رہے ہیں لیکن جب سے امریکہ نے بھارت کو اپنا اتحادی بنا کر اس پلڑے میں اپنا وزن ڈال دیا ہے اس کے بعد پاکستان کے لیے اس خطے میں چین کے ساتھ قریبی تعلقات کے علاوہ کوئی آپشن باقی نہیں بچا ہے۔ اس لیے پاکستان کو ان دونوں ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
مؤثر خارجہ پالیسی کے لیے اندرونی استحکام ضروری
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹرحسین نے بتایا کہ ایک آزاد، خودمختار اور موثر خارجہ پالیسی کے لیے ملک میں سیاسی استحکام اور معاشی بہتری کا ہونا بھی ضروری ہے۔ کئی مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ پاکستان میں پائے جانے والے جذباتی اور ہیجانی ماحول سے اوپر اٹھ کر زمینی حقائق کی روشنی میں خارجہ پالیسی بنانا آسان نہیں ہے۔ حسین حقانی بتاتے ہیں کہ ملک میں پائے جانے والے شدید سیاسی اختلافات کی وجہ سے خارجہ پالیسی پر اتفاق رائے نہیں ہو پاتا۔ ”سیاسی جماعتیں حکومت میں جو پالیسی اپناتی ہیں اپوزیشن میں آ کر اسی پر تنقید شروع کر دیتی ہیں۔ انیس سو اٹھاسی میں بے نظیر نے بھارت سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی تو نواز شریف نے اس کی مخالفت کی، بعد ازاں نواز شریف حکومت نے ایسا کرنا چاہا تو بے نظیر نے اس کی مخالفت کی۔‘‘
کشمیر: بھارت کا مقابلہ اب پاکستان کے بجائے چین سے
پاکستان میں بعض اوقات سیاسی رہنما خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایسے ایسے غیر ذمہ دارانہ بیانات داغ دیتے ہیں جن کے ملک سے باہر اثرات بہت منفی ہوتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک پارٹی مخالف پارٹی کی حکومت کو ناکام بنانے کے لیے ایک دوسرے ملک کو امداد روکنے یا آئی ایم ایف کی شرائط میں رخنہ اندازی کرنے سے بھی باز نہیں رہی ہے۔
خارجہ پالیسی کو لاحق چیلنجز
ڈاکٹرحسین نے بتایا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک چیلنج ہمسائے ملکوں کے ساتھ تعلقات بھی ہیں۔ ان کے مطابق بھارت، افغانستان اور ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات جس سطح پر ہونے چاہئیں اس سطح پر نہیں ہیں۔
حسین حقانی بتاتے ہیں کہ پاکستان پہلے سمجھتا تھا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت ان کے مفادات کی محافظ ہو گی اب وہ اسے چیلنج خیال کرتا ہے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے خارجہ محاذ پر تعلقات کی بہتری کے کئی مواقع ضائع کیے ہیں۔ ان کے بقول، ”جب نواز شریف اور عمران خان ملک کے وزیر اعظم تھے تو وہ کسی حد تک اسلامی دنیا کے نمایاں نام کے طور پر جانے جاتے تھے لیکن اس وقت ہماری جو حالت ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
پاک بھارت تعلقات
خورشید قصوری کے مطابق پاک بھارت تعلقات میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم کردار رہا ہے۔ مسئلہ کشمیر اور پانی کے تنازعے سمیت پاکستان اور بھارت میں شروع سے ہی کئی اختلافات موجود تھے۔ ان کے مطابق بھارت نے اس خطے میں تنازعات کو طے کرنے کے لیے بڑے ملک ہونے کے ناطے سے بڑے پن کا مظاہرہ نہیں کیا اور اس نے ایسا کردار ادا نہیں کیا جیسا سعودی عرب نے گلف میں اور انڈونیشیا نے آسیاں میں ادا کیا تھا۔ خورشید قصوری کہتے ہیں، ” میرے دور میں پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل کے قریب پہنچ چکا تھا اور اس حل کو دونوں ملکوں کی اسٹیبلشمنٹ اور حکومتوں کی حمایت بھی حاصل تھی۔ لیکن بعد ازاں وہ بات آگے نہ بڑھ سکی۔ ‘‘
خارجہ پالیسی کسے بنانی چاہیے؟
پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ خارجہ امور سے متعلقہ اہم فیصلوں میں سویلین حکومتوں کا رول زیادہ نہیں ہوتا۔ دفتر خارجہ کے ایک سینئر افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اب تو یہ حال ہے کہ کئی اہم فیصلے اور ملاقاتیں بھی دفتر خارجہ سے بالا بالا ہو رہی ہوتی ہیں اور ان میں ان کی آوٹ پٹ شامل نہیں ہوتی۔
حسین حقانی کے بقول ملک کی خارجہ پالیسی تمام اسٹیک ہولڈرز کے مشورے سے بننی چاہیے۔ اس کی تیاری میں سیاسی حکومت، دفتر خارجہ اور اسٹیبلشمنٹ کے علاوہ ایسے ماہرین کی رائے بھی لی جانی چاہیے جو دنیا کے حالات اور ان کی نزاکتوں کو سمجھتے ہیں۔ ان کے بقول خارجہ پالیسی ہیجانی کیفیت سے نکل کر ٹھنڈے دماغ کے ساتھ بنانی چاہیے۔
ڈاکٹر حسین شہید سہروردی کے مطابق جب ہم کسی وزیر خارجہ کو کئی کئی قلمدان تھما دیتے ہیں تو پھر خارجہ پالیسی کا کام ‘کمپرومائز‘ ہونے لگتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ”یہ شعبہ کل وقتی توجہ مانگتا ہے۔ اگر ایک بندہ ڈپٹی پرائم منسٹڑ بھی ہو، بہت ساری وزارت خزانہ کی بہت ساری کمیٹیوں میں بھی شریک ہو تو اندازہ کر لیں کہ وہ وزارت خارجہ کو کتنا وقت دے پاتا ہوگا۔ ‘‘
حسین حقانی کہتے ہیں کہ اس ملک کے وزیر خارجہ کا قلم دان ماضی میں منظور قادر، صاحب زادہ یعقوب علی خان اور ذولفقار علی بھٹو جیسے لوگوں کے پاس رہا ہے جن کا عالمی سطح پر کچھ نہ کچھ قد کاٹھ تھا اور دنیا میں لوگ ان کے کاموں کو جانتے تھے۔ لیکن اسحاق ڈار کی وزارت خزانہ کے حوالے سے کامیابیاں ہوں گی لیکن بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے ان کا امیج ویسا نہیں ہے۔
بشکریہ۔ ڈی ڈبلیو
واپس کریں