دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اسرائیل کے لبنان پر آدھے گھنٹے میں 80 خوفناک حملے
No image اسرائیلی فوج نے لبنان پر خوفناک بمباری اور حملے کیے ہیں۔ بیکا وادی میں بھی شدید بمباری کرتے ہوئے حزب اللہ کے اہداف کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ لبنانی نیوزایجنسی کاکہنا ہے کہ نبیتاہ کے علاقے میں اسرائیلی فوج نے آدھے گھنٹے کے دوران 80 سے زائد فضائی حملے کیے ہیں ، ان حملوں میں 365 افراد شہید جبکہ 1040 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔وسطی اور شمالی غزہ میں اسرائیلی فورسز نے 2 سکولوں پر بمباری کی ہے جس کے نتیجے میں 7 فلسطینی شہید ہو گئے.دیر البلاح میں ایک گھر پر اسرائیلی بمباری سے 4 بچوں سمیت 5 فلسطینی شہید ہو گئے۔صہیونی فوج نے حزب اللہ کے ٹھکانوں پر حملے جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے لبنان میں شہریوں کو حزب اللہ کے ٹھکانوں کے اطراف سے نقل مکانی کا حکم دیا۔ اسرائیلی فوج نے بیت اللحم میں ایک لڑکی سمیت پانچ جبکہ مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک گاؤں سے بچوں سمیت درجنوں فلسطینیوں کو حراست میں لیا ہے۔
اسرائیلی حملوں کا دائرہ پھیلتا اور اس کی بربریت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔کون سا مہلک اور تباہ کن اسلحہ ہے جو فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی طرف سے استعمال نہیں کیا جا رہا۔ جہازوں کے ذریعے بمباری ہوتی ہے۔ راکٹ برسائے جاتے ہیں۔ میزائل استعمال ہوتے ہیں اور اب تو اسرائیل کی طرف سے پیجر اور واکی ٹاکی سیٹ بھی فلسطینیوں ،حزب اللہ بلکہ مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔لبنان میں ان کے پھٹنے سے بچوں اور خواتین سمیت 30 افراد شہید اور تین ہزار سے زائد زخمی ہو گئے۔زخمیوں میں ایرانی سفیر بھی شامل ہیں۔یہ پیجر تائیوان کی کمپنی نے فراہم کیے تھے۔فلسطین اور حزب اللہ کی لیڈرشپ کی طرف سے اسرائیل پر اس دہشت گردی کا الزام لگایا گیا ہے۔عالمی برادری اس پر بدستور خاموش ہے۔
غزہ اور مغربی کنارے کے علاقوں کو اسرائیل نے تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے۔ اب لبنان کے در پے ہے۔ آدھے گھنٹے میں 80 حملوں کا ہونا بربریت کی انتہا ہے۔فلسطین سے نکل کر یہ جنگ مشرق وسطیٰ کواپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ اسرائیل نے شام پر حملے کئے۔ یمن پر اور اس کے ساتھ ساتھ شام اور ایران کے بھی کئی علاقوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ایران میں تو حماس کے سربرا اسماعیل ہانیہ کو شہید کیا گیا جبکہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی حادثے میں موت کو بھی اسرائیل کی دہشت گردی سے جوڑا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی قراردادیں منظور ہوتی ہیں اس پر امریکہ کی طرف سے ویٹو کیا جاتا تھا لیکن ویٹو سے بچ رہنے والی قرارداد پر بھی اسرائیل عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔عالمی عدالت انصاف کی طرف سے اسرائیل کو آپریشن روکنے کا حکم دیا گیا۔ اس حکم کو بھی اسرائیل نے مسترد کر دیا۔اقوام متحدہ اپنی قراردادوں پر عمل کرانے سے قاصر ہے۔امریکہ اور برطانیہ اسرائیل کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ایسے میں اگر مسلمان ممالک متحد ہو جائیں تو اسرائیل کو لگام ڈالی جا سکتی ہے۔مگر افسوس کہ اسلامی ممالک یک جا اور یک جہت نہیں ہیں۔ 1973ء میں صرف تین عرب ممالک متحد ہو کر اسرائیل کو گھٹنوں پر لے آئے تھے۔ ان ممالک کی شرائط پر اسرائیل کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر مجبور ہوا تھا۔ اسی طرح آج بھی عرب ممالک متحد ہو جائیں تو فلسطینیوں پر اسرائیلی بربریت کا سلسلہ ختم ہو سکتا ہے۔اسرائیل فلسطین جنگ پر مسلم ممالک ہی نہیں بلکہ عرب ملکوں میں بھی انتشار کی کیفیت پائی جاتی ہے۔
اسرائیل کی طرف سے شام میں ایران کے سفارت خانے پر حملہ کیا گیا جس کے جواب میں ایران نے بھی اسرائیل پر راکٹ اور میزائل داغے جس کی اکثر مسلم ممالک نے حمایت کی جبکہ اردن اور مصر کی طرف سے ایران کو ان حملوں کے لیے اپنی فضائی حدود استعمال نہ کرنے کی تنبیہ کی گئی۔اردن نیکئی ایرانی میزائل اپنی حدود سے گزرنے کے دوران گرا بھی لیے تھے۔
اْدھر اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کا اجلاس جاری ہے اور یو این سیکرٹری جنرل نے گذشتہ روز لبنان میں جاری اسرائیلی حملوں کی جانب عالمی قیادتوں کی توجہ بھی مبذول کرائی تھی۔ اس کے باوجود اسرائیل نے لبنان کی سلامتی اور خود مختاری کو روندتے ہوئے ایک دن میں 80 تباہ کن حملے کر دیئے۔اس پر انسانی حقوق کی بات کرنے والی دنیا خاموش ہے۔اس لیے کہ جارحیت کا نشانہ صرف مسلمان بنے ہیں۔
اس جنگ کو ایک سال کا عرصہ نہیں ہوا کہ 50 ہزار کے لگ بھگ فلسطینی اور لبنانی باشندے بشمول خواتین بچے بوڑھے اور مریض تک اسرائیلی وحشت و بربریت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ان شہداء کے علاوہ دو لاکھ کے قریب افراد زخمی ہو کر اپاہج و معذور ہو گئے جبکہ لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہوئے ہیں۔اب یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا نہیں رہا بلکہ یہ انسانی بقاء کا مسئلہ بن چکا ہے۔انسانی المیہ بدترین صورت اختیار کر چکا ہے۔اس پر عالمی برادری کا خاموش رہنا انسانیت کی توہین ہے۔
انسانیت اخلاقیات اور عالمی قوانین اس کے متقاضی ہیں کہ اسرائیل کے خلاف بھی عالمی برادری اسی طرح سے بروئے کار آئے جس طرح نائن الیون کے بعد ان حملوں میں ملوث افراد اور ان کے پشت پناہوں کے خلاف لائحہ عمل اختیار کیا گیا تھا۔
ایک طرف جنرل اسمبلی کا اجلاس ہو رہا ہے‘ دوسری جانب اسرائیلی بربریت عروج پر ہے‘ جو کم از کم یواین رکن ممالک کیلئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ اگر اسرائیل کے معاملے میں جنرل اسمبلی کے اس اجلاس میں گفتند‘ نشستند‘ برخاستند والا رویہ اختیار کیا گیا تو اسرائیل کے حوصلے مزید بلند ہوں گے اور وہ عالمی امن کیلئے سنگین خطرات پیدا کر سکتا ہے۔ اگر عالمی امن درکار ہے تو جنرل اسمبلی کے اس اجلاس میں اسرائیلی جارحیت کو فوکس کیا جائے اور تمام رکن ممالک کو متحد ہو کر کوئی لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔
واپس کریں