پاکستان تحریک انصاف کو خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں الاٹ کرنے سے متعلق سپریم کورٹ کی فل کورٹ کے فیصلہ پر حکمران اتحادی جماعتوں کے علاوہ پاکستان الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی سخت تحفظات کا اظہار سامنے آیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے اس سلسلہ میں باضابطہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی تو اس کیس میں پارٹی ہی نہیں تھی‘ اسے مخصوص نشستیں دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے کبھی یہ نہیں کہا گیا کہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت نہیں ہے۔ وہ ایک سیاسی جماعت ہے اور رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی فہرست میں اس کا نام شامل ہے۔ یہ لسٹ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ البتہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی انتخابات کو درست قرار نہیں دیا تھا۔ اعلامیہ کے مطابق الیکشن کمیشن نے کسی عدالتی فیصلے کی قطعاً غلط تشریح نہیں کی۔ پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی انتخابات درست نہیں تھے جس کی وجہ سے الیکشن ایکٹ کے تحت اس سے انتخابی نشان واپس لیا گیا۔ اعلامیہ کے مطابق پی ٹی آئی اس کیس میں نہ تو الیکشن کمیشن اور نہ ہی پشاور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں پارٹی بن کر سامنے آئی اس لئے سپریم کورٹ کا پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔
اسی طرح حکمران اتحادی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی جانب سے بھی پی ٹی آئی کو خصوصی نشستیں دینے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ خصوصی مہربانی سے تعبیر کیا رہا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کے بقول اعلیٰ ترین عدلیہ نے آئین کے بجائے سیاسی فیصلہ دیا ہے کیونکہ جس نے ریلیف مانگا ہی نہیں‘ اسے ریلیف دے دیا گیا۔ اس طرح آئین اور انصاف کے تقاضوں کی جگہ سیاسی تقاضوں کو اہمیت دی گئی اور فاضل عدالت نے آئین اور قانون کی تشریح کے بجائے آئین سازی کا فرض سنبھال لیا۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کے بقول ریلیف سنی اتحاد کونسل مانگنے گئی تھی لیکن عدالت نے ریلیف پی ٹی آئی کو دے دیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو اب بھی کوئی خطرہ نہیں اور ہمارے پاس اس وقت بھی قومی اسمبلی میں 209 ارکان کی اکثریت موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ ججوں کے احتساب سمیت بہت سی اصلاحات کرنے والی ہیں۔ اسی طرح حکومتی اتحادی پیپلزپارٹی کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس فیصلہ میں ’’لاڈلہ ازم‘‘ اور ’’گڈٹو سی یو‘‘ کی واضح جھلک نظر آرہی ہے۔ پیپلزپارٹی کے عہدیدار اور سندھ کے سینیٹر وزیر شرجیل میمن کے بقول سپریم کورٹ کے فیصلہ سے کنفیوژن پیدا ہوئی ہے۔ ایم کیو ایم کے مصطفی کمال نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اس فیصلہ سے آئین‘ قانون اور جمہوریت کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ اے این پی کی جانب سے بھی سپریم کورٹ کے فیصلہ پر کہا گیا کہ جو ریلیف مانگا ہی نہیں گیا‘ وہ بھی سپریم کورٹ نے دے دیا ہے۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو جزوی طور پر قبول کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ ہم بطور جماعت اس فیصلہ کیخلاف اپیل نہیں کرینگے تاہم فیصلے سے متاثرہ افراد کو انفرادی طور پر اپیل سے نہیں روکا جا سکتا۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ چونکہ فل کورٹ کی جانب سے صادر ہوا ہے اس لئے اب اس فیصلہ کیخلاف اپیل کا کوئی دوسرا فورم موجود نہیں۔ اب کسی فریق کی جانب سے اس فیصلہ پر عدالت عظمیٰ سے صرف نظرثانی کی درخواست کی جا سکتی ہے جیسا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی سزا کیخلاف سپریم کورٹ نے اس کیس کے فیصلہ کے 45 سال بعد نظرثانی کرکے اسے انصاف کے تقاضوں کے منافی قرار دیا۔ اسی طرح خصوصی نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کا موجودہ فیصلہ بھی نظرثانی کا متقاضی رہے گا۔ البتہ نظرثانی کے کسی مرحلے تک یہی فیصلہ حتمی رہے گا۔ بے شک عدلیہ نے آئین و قانون کے تقاضوں کے مطابق ہی فیصلے صادر کرنا ہوتے ہیں جن میں کیس ہارنے والے فریق کیلئے اپیل کے مختلف فورمز موجود ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے بلیم گیم والے کلچر میں عدالتی فیصلے بھی قبولیت اور عدم قبولیت کی زد میں آتے رہتے ہیں جبکہ اعلیٰ عدلیہ کے بعض فیصلے ملک کے آئینی اور قانونی حلقوں کے علاوہ بیرون ملک بھی ہدف تنقید بنے۔ بھٹو قتل کیس کا فیصلہ تو ملک کی عدالتوں میں بھی کبھی بطور نظیر پیش نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح جنرل پرویز مشرف کے ماورائے آئین اقدام کے خلاف جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا صادر کیا گیا فیصلہ بھی بالخصوص آئینی اور قانونی حلقوں میں متنازعہ ہوا جس کے بارے میں آج بھی اسی رائے کا اظہار کیا جاتا ہے کہ آئین میں ترمیم کا جو اختیار جنرل مشرف نے مانگا بھی نہیں تھا‘ وہ بھی انہیں تفویض کر دیا گیا جس کی وضاحت کیلئے جسٹس ارشاد حسن خان کو اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد ایک پوری کتاب اپنی سوانح عمری کی شکل میں لکھنا پڑی مگر اس فیصلہ پر آئینی اور قانونی حلقے اب بھی مطمئن نہیں۔
ایسا ہی ارکان اسمبلی کی اہلیت سے متعلق آئین کی دفعہ 63 کی متعلقہ شقوں کی وضاحت کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ سیاسی‘ آئینی اور قانونی حلقوں میں تنقید کی زد میں آیا۔ اس فیصلہ کے تحت کسی رکن اسمبلی کو پارٹی سے وفاداری بدلنے پر ووٹ کا حق استعمال کرنے سے بھی قبل نااہلیت کا مستوجب ٹھہرایا گیا تو اس فیصلہ کو سپریم کورٹ کی جانب سے آئین کو خود تحریر کرنے کے مترادف قرار دیا گیا۔ ایسی ہی تنقید اب مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے حوالے سے سپریم کورٹ کی فل کورٹ کے موجودہ فیصلے پر ہو رہی ہے جبکہ پاکستان الیکشن کمیشن کی جانب سے اس فیصلہ پر تحفظات کا اظہار معنی خیز ہے جس کا بنیادی اعتراض یہی ہے کہ پی ٹی آئی تو اس کیس میں کسی بھی سطح پر فریق نہیں تھی‘ پھر اسے کیونکر مخصوص نشستیں الاٹ کر دی گئیں۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے حسن و قبح پر تو یقیناً مختلف آراء اظہار ہوتا رہے گا جس سے ملک میں سیاسی انتشار و خلفشار بڑھنے کا امکان بھی موجود ہے کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلہ سے قومی سیاسی قیادتوں کے مابین افہام و تفہیم کی گنجائش بھی بادی النظر میں کم ہو گئی ہے۔ زمینی حقائق کے مطابق سپریم کورٹ کے اس فیصلہ سے حکمران اتحادی جماعتیں 77 مخصوص نشستوں سے محروم ہو گئی ہیں اور قومی اسمبلی میں انکے پاس دوتہائی اکثریت بھی نہیں رہی۔ چنانچہ حکومت اس وقت سسٹم کی اصلاح اور عوام کی فلاح کے معاملے میں کسی آئینی ترمیم اور دوتہائی اکثریت کے متقاضی کسی قانون کو منظور کرانے کی پوزیشن میں نہیں رہی چنانچہ منتخب ایوانوں میں مچھلی منڈی والے مناظر زیادہ دیکھنے کو مل سکتے ہیں جو بالآخر جمہوریت کا مردہ خراب کرنے کی نوبت ہی لائیں گے۔ اسکے علاوہ سپریم کورٹ کے فیصلہ پر الیکشن کمیشن کا تحفظات کا اظہار ادارہ جاتی ٹکرائو والی ویسی ہی فضا پیدا کرتا نظر آرہا ہے جیسی ماضی قریب میں پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے کیس میں پیدا ہوئی تھی جب ادارہ جاتی سطح پر سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عملدرآمد ناممکن بنا دیا گیا تھا۔ اگر سپریم کورٹ کا موجودہ فیصلہ ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی علمداری کیلئے قومی افہام و تفہیم کی فضا مستحکم بنانے کے بجائے سیاسی انتشار اور افراتفری کو فروغ دینے کا باعث بنے گا تو اس فیصلہ کا کریڈٹ انہی عناصر کے کھاتے میں جائیگا جو ملک میں سیاسی استحکام نہیں دیکھنا چاہتے۔ اس تناظر میں سسٹم کی بقاء و استحکام کیلئے عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ زہر قاتل ثابت ہو سکتا ہے۔ اس فضا میں سسٹم کو محفوظ کرنے کا بظاہر ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ تمام قومی سیاسی قیادتیں باہم دست وگریباں ہونے سے گریز کریں اور افہام و تفہیم کے ساتھ منتخب ایوانوں کو چلائیں۔ اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو حکومتی اتحادی جماعتیں نئے انتخابات کیلئے قوم کے پاس جانے کو ترجیح دیں۔
واپس کریں