دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
چاند کی مٹی میں پودے اگانے کا تجربہ، ’خلائی سفر سستا ہونے کی امید‘
No image سائنس دانوں نے پہلی مرتبہ چاند سے حاصل کردہ مٹی میں پودے اگانے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جمعرات کو کمیونیکیشنز بائیولوجی کے جریدے میں اس تجربے کی تفصیلات سامنے آئی ہیں جن نے محققین کو امید دلائی ہے کہ ایک دن براہ راست چاند پر پودے اگانا ممکن ہو گا۔
یہ خلائی زراعت کے حوالے سے انسان کے علم میں بڑی پیش رفت ہے۔ اس سے مستقبل کے خلائی مشنوں کو بہت زیادہ پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور ان کے اخراجات کی بھی بچت ممکن ہوگی۔ علاوہ ازیں اس سے خلا میں دیر اور دور تک کے سفر کی سہولت بھی پیدا ہوگی۔تاہم اس تحقیق سے وابستہ یونیورسٹی آف فلوریڈا کے مصنفین کے مطابق اس موضوع پر ابھی مفصل مطالعہ کرنا باقی ہے۔
امریکی خلائی ایجنسی کے سربراہ بل نیلسن نے کہا ہے کہ ’یہ تحقیق ناسا کے طویل مدتی تحقیقی اہداف کے لیے اہم ہے۔ ہمیں چاند اور مریخ پر پائے جانے والے وسائل کو استعمال کرنے کی ضرورت ہو گی تاکہ مستقبل کے خلابازوں کے لیے خلا میں دور رہنے اور کام کرنے کے لیے خوراک کے ذرائع مہیا کیے جا سکیں۔‘
اپنے تجربے کے لیے محققین نے اپالو 11، 12، اور 17 مشنوں کے دوران چاند کے مختلف مقامات سے اکھٹی کی گئی مٹی کا صرف 12 گرام استعمال کیا۔
انہوں نے انگوٹھے کے سائز کے چھوٹے برتنوں میں تقریباً ایک گرام مٹی ڈالی (جسے ’ریگولتھ‘ کہا جاتا ہے) اور پانی ڈالا، پھر اس میں بیج ڈال دیے۔ انہوں نے ہر روز پودوں کو محلول کی صورت میں خوراک بھی دی۔
محققین نے اس تجربے کے لیے سرسوں سے ملتے جلتے پودے ارابڈوپسز تھالیانا لگانے کا انتخاب کیا کیونکہ یہ آسانی سے اگتا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کا پہلے ہی بڑے پیمانے پر مطالعہ کیا جا چکا ہے۔
ایک کنٹرول گروپ کے طور پر بیج زمین سے مٹی میں بھی لگائے گئے اور ساتھ ہی چاند اور مریخ کی مٹی کے نمونوں میں بھی لگائے گئے۔
نتیجہ یہ ہوا کہ دو دن کے بعد چاند کے نمونوں سمیت سب میں وہ پودے اگ آئے۔اس تحقیقی مقالے کی مصنفہ انا لیزا پال نے ایک بیان میں کہا کہ ’ہر پودا چاہے وہ چاند (کی مٹی) کے نمونے میں ہو یا کنٹرول گروپ میں، چھٹے دن تک ایک جیسا نظر آ رہا تھا۔‘
لیکن اس کے بعد ان پودوں میں فرق ظاہر ہونا شروع ہو گیا اور چاند کے نمونوں میں پودے آہستہ آہستہ بڑھے اور ان کی جڑیں کم ہو گئیں۔
اس کے20 دن کے بعد سائنس دانوں نے تمام پودوں کو کاٹنے کے بعد ان کے ڈی این اے کا مطالعہ کیا۔
ان کے تجزیے سے پتا چلا کہ چاند کی مٹی پر لگائے گئے پودوں نے ناسازگار ماحول میں اگنے والے پودوں کی طرح ردعمل ظاہر کیا تھا جیسا بہت زیادہ نمکیات اور بھاری دھاتوں والی مٹی میں ہوتا ہے۔
اب سائنس دان یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ اس ماحول کو پودوں کے لیے مزید سازگار کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ بشکریہ اردو نیوز
واپس کریں