دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان اور مستقبل کا سیاسی منظر نامہ
No image سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہم غیر ملکی سازشی خط کی تحقیقات کیلئے کسی کمیشن کو تسلیم نہیں کریں گے، صرف سپریم کورٹ میں اوپن سماعت کو مانیں گے۔لاہور میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف خاندان جتنا جھوٹا اور کرپٹ پوری دنیا میں اور کوئی نہیں ہے۔ انہوں نے لاہور ہائیکورٹ میں جا کر گواہی دی تھی کہ نواز شریف واپس آ جائیں گے۔ انہوں نے اس ملک پر کتنا بڑا ظلم کیا ہے، جس کا کسی کو اندازہ نہیں ہے۔عمران خان کا کہنا تھا کہ تکلیف دہ چیز یہ ہے کہ ملک کے بڑے ڈاکو جو ضمانت پر تھے انہیں ملک پر مسلط کردیا گیا۔ میں پاکستانی عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ ہمیں ووٹ دیں یا نہ دیں لیکن ساری زندگی ان لوٹوں کو ووٹ نہ دینا۔ جن کی جائیدادیں ملک سے باہر پڑی ہیں انہیں کبھی ووٹ نہ ڈالو۔ اس جماعت کو کبھی ووٹ نہ دو جن کے لیڈرز کے پیسے اور جائیدادیں باہر پڑی ہیں۔
مبینہ غیر ملکی مراسلے پر ایک بار پھر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عدم اعتماد آیا نہیں تھا لیکن امریکی آفیشل کو پہلے ہی پتہ تھا۔ وزیراعظم تو میں تھا، یہ کس کو کہہ رہے تھے کہ عمران خان کو ہٹائو۔ کہا گیا اگر عدم اعتماد کامیاب ہوگیا تو پاکستان کو معاف کر دیں گے۔ بتایا جائے ہم نے کیا جرم کیا تھا کہ وہ ہمیں معاف کر دے گا۔ سفیر کو کہا گیا کہ عدم اعتماد میں عمران خان کو نہ ہرایا تو پاکستان کو مشکلات کا سامنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کبھی سامراج کا دبائو برداشت نہیں کرسکتے۔ میرا جینا اور مرنا پاکستان میں ہے، میں کیوں اپنے لوگوں کو امریکہ کیلئے قربان کروں۔ کبھی کسی نے سوچا کہ کس نے ہمیں اس جنگ میں دھکیلا۔ ہمارے 80 ہزار لوگ شہید ہوئے، قبائلی علاقہ اجڑ گیا۔ کون سا ملک کسی کیلئے خود کو قربان کرتا ہے۔ میں نے ہمیشہ کہا بیرونی جنگ ہماری نہیں ہے۔ افغان مسئلے پر ہمیشہ کہا کہ کوئی عسکری حل نہیں ہے۔ شروع سے کہتا رہا کہ یہ جنگ ہماری نہیں ہے۔ میں پہلے دن سے امریکی جنگ کیخلاف تھا۔
یاد رہے کہ فروری کے شروع میں اپوزیشن پارٹیوں میں کوئی ہم آہنگی نہیں تھی۔ مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں مسلم لیگ (ن) اور چند دوسری جماعتوں پر مشتمل اتحاد لانگ مارچ کی منصوبہ بندی کر رہا تھا جسے 23 مارچ کو شروع ہونا تھا۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے چئیر مین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ 27 فروری کو کراچی سے شروع ہوا اور 8 مارچ کو اسلام آباد کے ڈی گراؤنڈ میں اختتام پذیر ہو گیا۔ نہ جانے اس دوران کون سی سیاسی ایمرجنسی محسوس کی گئی کہ یک بیک آصف علی زرداری تحریک عدم اعتماد پر اتفاق رائے کے لئے شہباز شریف سمیت اہم لیڈروں سے ملاقاتیں کرنے لگے اور کسی بھی طرح عمران خان کو وزارت عظمی سے فارغ کرنے کی منصوبہ بندی ہونے لگی۔
یہ تحریک انصاف کی حکومت کے اقتدار کا آخری سال تھا۔ صاف دکھائی دے رہا تھا کہ عمران خان پر مہنگائی اور ابتر معاشی حالت کی وجہ سے شدید دباؤ ہے اور بجٹ پیش کرنے کے بعد اس دباؤ میں اضافہ ہو گا۔ ان حالات میں انتخابات کا اعلان ہونا تھا اور 2023 کے وسط تک انتخابات کا انعقاد ضروری تھا۔ اس سے پہلے عمران خان کو اقتدار عبوری حکومت کے سپرد بھی کرنا تھا۔ تحریک عدم اعتماد نہ آتی تو ان کے پاس حکومت کا بمشکل ایک سال باقی تھا۔ ان کے طرز حکومت کو دیکھتے ہوئے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ اس ایک سال میں بھی کوئی ایسا معجزہ انجام نہیں دے سکتے تھے کہ افراط زر اور بیروز گاری سے عاجز آئے ہوئے لوگ انہیں دوبارہ منتخب کرنے پر آمادہ ہو جاتے۔ مگر حکومت کو اقتدار سے نکلنے کے بعد سازش کا جو موقع ملا ہے وہ اسے کامیابی سے ہمکنارکر دے گی۔
عمران خان نے اپنی حکومت کے گرانے کو غیر ملکی سازش قرار دیا اور موجودہ حکومت کو امپورٹڈ حکومت قرار دیا۔ جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پی ٹی آئی کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں امپورٹڈ ہیں اور غیر ملکی ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں؟ خان صاحب شاید یہ با ت بھول گئے ہیں کہ ان میں سے بہت سی سیاسی جماعتیں ان کی حکومت میں اتحادی تھیں۔ تب ان سیاسی جماعتوں کی کیا حیثیت تھی؟ اس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی پی ٹی آئی کے ساتھ ہے تو وہ ٹھیک ہے ورنہ وہ امپورٹڈ ہے اور غیر ملکی ایجنڈے پر کام کر رہا ہے؟ دراصل خان صاحب نے عوام کو بے وقوف بنانے کے فن میں مہارت حاصل کر لی ہے اب وہ جانتے ہیں کہ وہ جو کچھ بھی کہیں گے ان کے حامی اسے مِن و عَن مانیں گے۔ لیکن اب لوگوں کو پتہ چل گیا ہے کہ خان صاحب صرف باتیں کرتے ہیں اور عوام کی بہتری کے لئے کچھ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ جس کا اندازہ عوام کو پی ٹی آئی کے دور اقتدار میں ہو چکا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ عمران خان نے مخالف سیاسی اور غیر غیرسیاسی عوامل کو بھرپور موقع دیا تاکہ حالات ان کے لیے توقع کے عین مطابق موافق ہوجائیں۔ آسان الفاظ میں یہ کہ عمران خان نے اپنی بساط خود الٹی تاکہ وہ شدید سیاسی نقصان سے بچ سکیں، جس کا فوری اثر یہ ہوا کہ عوام کے ان حلقوں میں بھی عمران خان کے لیے نرم گوشہ پیداء ہوا جو تھے تو عمران خان کے ہی سپورٹر مگر مجموعی کارکردگی پر نالاں اور مایوس تھے جبکہ دیگر جماعتوں کے وہ مایوس سپورٹر جو اپنی اپنی جماعت کی دہائیوں سے اختیار کی گئی بے ثمر روش سے نالاں تھے ان میں بھی عمران خان کے لیے ہمدردی اور دلچسپی پیداء ہوئی۔
دیکھنا یہ ہے کہ کیا عمران خان اپنی بچھائی بساط میں کامیاب ہو سکیں گے؟ اس کا صحیح جواب تو وقت ہی دے گا لیکن عمران خان بظاہر جہاں دو تہائی نہیں تو سادہ اکثریت حاصل کرنے کے قریب ہیں وہیں انہیں ناکام بنانے کی بھی پوری کوشش کی جائے گی۔ عمران خان اپنی موجودہ بڑھتی عوامی حمایت اور اسٹریٹ پاور کی بدولت بہت زیادہ بے باک انداز اور کھلے الفاظ کا بالکل اسی لہجہ میں استعمال کر رہے ہیں جیسا بھٹو نے اور اپنے آخری دور میں نواز شریف نے کیا، جس کا عمران خان ہٹائے جانے کی صورت میں پہلے ہی عندیہ بھی دے چکے تھے۔یہ طریقہ واردات بھٹو اور نواز شریف کے برعکس عمران کے غیر سیاسی مخالفین کو جس طرح دفاعی پوزیشن میں لے آیا ہے اگر وہ حقیقی ہے تو اس سے توقع ہے کہ وہ عمران خان کو روایتی مشکل حالات کا باآسانی شکار نہیں کر پائیں گے اور اگر یہ سب کسی نئی منصوبہ بندی کے تحت دانستہ طور پر کیا جا رہا ہے تو عمران خان کی اگلے انتخابات میں فتح یقینی ہے۔
شفقنا اردو
واپس کریں