دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
چراغ تلے اندھیرا
No image حکومت ڈالرز کے اخراج کو کنٹرول کرنے کے لیے درآمدات کو محدود کر رہی ہے جس سے معاملہ مزید خراب ہو رہا ہے۔ 70 فیصد سے زیادہ درآمدات توانائی اور خام مال ہیں جو معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے ضروری ہیں لیکن ہم مقامی وسائل کو بروئے کار لا کر ادائیگیوں کے دائمی توازن کے بحران سے نکل سکتے ہیں۔ مثلاً پاکستان کے پاس تھر میں کوئلے کے بڑے ذخائر ہیں۔ ہم انہیں مہنگی آر ایل این جی اور فرنس آئل پر انحصار کرنے کے بجائے بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ اس سے غیر ملکی ذخائر میں نمایاں بچت ہوگی۔

پاکستان نے بجلی کی پیداوار کے لیے مہنگا ایندھن استعمال کر کے تقریباً 2.5 ٹریلین کا گردشی قرضہ جمع کر رکھا ہے۔ تھر کا کوئلہ پاور جنریشن میں مددگار ثابت ہو گا اور بجلی کی مجموعی لاگت کو کم کرنے میں ہماری مدد کرے گا۔ نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کے مطابق تھر کول پر مبنی بجلی کی پیداواری لاگت صرف 3.39 فی یونٹ ہے جو کہ بجلی کی اوسط پیداواری لاگت سے تقریباً دس گنا کم ہے۔
ایک جانب ہمارے پالیسی سازوں کی غفلت کے باعث لوٹ مار کا بازار ہم نے خود گرم کر رکھا ہے یعنی بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں کو کھلی چھوٹ دے کر جو مہنگی بجلی پیدا کر کے عوام کو خون نچوڑ رہی ہیں تو دوسری جانب ہر دور کے حکمران کشکول اٹھا کر در در بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں۔
پاکستان کو شدید معاشی چیلنجز کا سامنا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گزشتہ ہفتے کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کے پاس موجود زرمبادلہ کے ذخائر گر کر صرف 3 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔

عالمی مالیاتی اداروں اور اور دوست ممالک سے قرض لے کر ذخائر بنانے کی بجائے پالیسی سازوں کو چاہیے کہ وہ مذکورہ بالا رکاوٹوں کو دور کریں جو پائیدار اور طویل مدتی ترقی کے حصول کے لیے مزاحمت کر رہی ہیں
واپس کریں