دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پشاور ،تاندہ ڈیم ،لسبیلہ۔۔۔لہو لہان ۔طفیل مزاری
No image پشاور لہو لہان ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق شہدا کی تعداد 93 ہوچکی ہے۔ واقعہ پولیس ہیڈ کوارٹرز کی مسجد میں پیش آیا، جہاں خودکش حملہ آور، کڑی سیکورٹی کا حصار توڑ کر پہلی صف میں پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ حکومت نے سخت غم و غصّے کا اظہار کرتے ہوئے دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا اعلان کیا ہے، جبکہ عوام نے شہدا کے درجات کی بلندی کی دعا کی ہے۔

تاندہ ڈیم میں ڈوب کر شہید ہونے والے بچوں کی تعداد 50 ہوچکی ہے۔ اطلاعات کے مطابق کشتی میں گنجائش سے زائد 57 بچے سوار تھے، جن کو لائف سیونگ جیکٹ اور دیگر ضروری حفاظتی انتظامات کے بغیر بٹھایا گیا تھا۔ حکومت نے سخت غم و غصّے کا اظہار کرتے ہوئے آئندہ ایسے واقعات نہ ہونے کے عزم کا اعادہ کیا ہے، جبکہ عوام نے شہدا کے درجات کی بلندی کی دعا کی ہے۔

لسبیلہ بس حادثے کے نتیجے میں 43 مسافر زندہ جل کر شہید ہوگئے۔ اطلاعات کے مطابق بس میں ہزاروں لیٹر ایرانی ڈیزل اسمگل کیا جارہا تھا اور گاڑی خراب ہونے کے باوجود بس ڈرائیور مالکان کی ہدایت پر بس کو کراچی لیجانا چاہتا تھا۔ حکومت نے سخت غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے بس مالکان کے خلاف پرچہ درج کروایا ہے، جبکہ عوام نے شہدا کے درجات کی بلندی کی دعا کی ہے۔

صرف رواں ہفتے پاکستان کے مختلف علاقوں میں ہوئے یہ تین واقعات ہیں۔ جن سے ہمارے حکومتی اداروں اور عوامی رویوں کی تصویر نظر آتی ہے۔ ایسے واقعات کا تسلسل سے ہونا اور پھر اس پر حکومت اور عوام کے ایک ہی قسم کے رسمی ردعمل دہرائے جانے کی عادت سے ہماری ترجیحات، اوقات اور صلاحیت نمایاں ہوتی ہے۔

اوپر دیے گئے واقعات پر غور کریں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان سارے واقعات سے آسانی سے بچا جا سکتا تھا۔ حکومت اگر انتظام کرنے میں ناکام ہے تو عوام بھی اس کے ساتھ ذمہ دار ہیں۔ ان واقعات میں اگر چند لوگ بھی ہمت کرکے آگے بڑھ کر کچھ کرتے تو شاید یہ حادثات رونما نہ ہوتے۔ لیکن کیا کریں کہ ہم نے ہر کام دوسروں کے اوپر ڈالنے کی عادت اپنالی ہے۔
کچھ بھی کہہ لیں، کچھ بھی کرلیں، ہم نے اپنی غلطیوں سے سبق حاصل نہ کرنے کی ضد ٹھان لی ہے۔ شہید کے درجات کی بلندی جیسے الفاظ میں اپنے زخموں کا مرہم تلاش کر لیا ہے اور اپنی نااہلی کو اللہ کی رضا سے مشروط جان کر اپنی بربادی کا بندوبست کرلیا ہے۔

ان واقعات سے پورا ملک سوگوار ہے، لیکن سیاست دان اقتدار کی خاطر آپس میں دست و گریباں ہیں اور عوام اپنے پیاروں کے جنازے کندھوں پر اٹھائے قبرستانوں کی جانب رواں دواں ہیں۔ بقول شاعر
ہر طرف خون کے چھینٹے ہیں ہمارے گھر میں
کون سا وِرد کرائیں کہ بلائیں جائیں
واپس کریں