دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بلوچستان کی کہانی ( قسط دوم)
 سید عون مجتبی
سید عون مجتبی
بلوچستان میں حکومت کے خاتمے کے بعد بغاوت کی اگ جل چکی تھی۔ جولائی 1974 میں باغی بلوچستان کو پنجاب اور سندھ سے ملانے والی سڑکیں بند کر رہے تھے۔ لیکن صوبہ سرحد کی سڑکیں محفوظ تھیں۔ بعض مواقع پر میٹر گیج ہرنائی سبی ریل لنک پر بھی خلل پڑا۔ اسی طرح ہگٹی کے علاقوں میں کام کرنے والی تیل اور گیس کے سروے اور ڈرلنگ ٹیموں پر بھی حملے کیے۔ تربیت یافتہ باغی فوجی کیمپوں پر گوریلا حملہ کررہےتھے۔
آپریشن کا دائرہ پنجاب کے شہر ڈیرہ غازی خان سے کوئٹہ کے جنوب میں سبی تک اور سندھ کے دادو سے لے کر افغان سرحد کے قریب نوشکی تک پھیلا ہوا تھا۔ 3 ستمبر 1974 کو آرمی نے تین دن کا "آپریشن چمالنگ" شروع کیا۔آپریشن میں 120 گوریلا مارے گئے اور 900 گرفتار ہوۓ۔ یہ بلوچ شورش میں خونریز مقابلے کا ریکارڈ تھا جس نے گوریلوں کی کمر توڑ دی۔ اس کے بعد وہ ٹھکانوں سے بھگ کر پہاڑیوں کی طرف پیچھے ہٹنے لگے۔ بڑی تعداد میں باغیوں نے ہتھیار ڈال دیے، بہت سے افغانستان فرار ہو گئے۔ فوج کا گھیراؤ مزید موثر ہو گیا۔
گوریلا دشوار گزار پہاڑی علاقے، ناقص مواصلات، زمین کے بارے میں ان کی اچھی معلومات، دوستانہ مقامی اور محفوظ پناہ گاہوں کے باعث انتہائی موثر انداز میں فوج سے لڑے۔ فوج کے پاس مہارت، زیادہ نقل و حرکت، فائر پاور اور وسائل ہیلی کاپٹر اور فائٹر بمبار تھے۔ گوریلا کی پسپائی کے بعد مرکزی منتظم میر ہزار رامخانی 1975 میں کچھ دوسرے کمانڈروں کے ساتھ افغانستان چلے گئے اور سرحد کے ساتھ کئی پناہ گاہیں بنا لیں۔ انہوں نے افغان حکومت کی معاونت کے ساتھ سرحد پار کئی حملے کیے۔ان کے پانچ اڈے تھے:دو قندھار اور قلات غلزئی میں اور تین پاکستانی سرحد کے قریب، دوہمندی، چمن اور گلستان کے مقابل۔قندھار کو اسلحہ، سازوسامان اور تربیت کی فراہمی کا مرکزی ہیڈکوارٹر بنایا گیا۔
افغانستان نے اسلام آباد اور باقی دنیا کی تنقید اور شکایات کو روکنے کے لیے ان اڈوں کو 'مہاجرین کیمپ' قرار دیا۔بلوچوں کی ایک بڑی تعداد افغانستان ہجرت کر گئی۔ دوسری طرف افغانستان دوسرے ممالک کی توجہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں اپنی مداخلت سے ہٹانے کے لیے پاکستان کو مظالم کا ذمہ دار ٹھہرا کر نقصان دہ پروپیگنڈہ کرتا رہا۔ باغیوں کے افغانستان منتقل ہونے کے ساتھ ہی بلوچستان میں شورش کی سطح کم ہوئی
سرداروں کو مطمئن کرنے کے لیے بگٹی قبیلے کے سردار نواب محمد اکبر خان کو صوبے کا گورنر بنایا گیا۔ وزیراعظم بھٹو کی ہدایت پر آرمی انجینئرز نے کوہلو سے میوند تک اور فاضل چیل سے کاہان تک انتہائی مفید سڑک تعمیر کیں۔ پورے مری علاقے کو مؤثر طریقے سے حکومتی انتظامیہ کی دسترس میں لایا گیا۔ کوہلو ایجنسی اور پنجاب کے شہر ڈیرہ غازی خان کے درمیان نجی بسیں چلنا شروع ہوئیں جو ناصر کھر (1749-1817) کے دور میں بلوچوں کے اعتماد کا حصہ تھا۔کوہلو کو سبی اور کاہان کے ضلعی قصبوں سے جوڑا گیا تھا۔ 1976 تک، فوج نے سبی اور میوند کے درمیان اہم رابطہ سڑک سمیت 564 میل نئی سڑکیں بنائیں۔ سڑک مواصلات نے علاقے کو دوسرے صوبوں کے لیے کھول دیا اس طرح بین الصوبائی تجارت کو ترقی ملی۔
بلوچستان کے اندرونی علاقوں میں پہلی بار طبی امداد، مسافروں کی نقل و حمل اور بچوں کی اسکولنگ جیسی جدید سہولیات دستیاب ہوئیں۔ پرامن زندگی کے حصول کے لیے قبائلیوں کو آباد ہونے کے لیے زمین بھی فراہم کی گئی۔ زرعی قرضوں اور تعلیمی وظائف کے لیے ایک ارب روپے کی آزادانہ گرانٹ اس کے علاوہ تھی۔
8 اپریل 1976 کو وزیراعظم بھٹو نے ایک جلسہ عام میں سرداری نظام کے خاتمے کا اعلان کیا۔حکومتی اصلاحات کے باوجود زمین اور پیداوار کے دیگر ذرائع بڑی حد تک سرداروں کے پاس رہے جنہوں نے اپنے لیے ترقیاتی فنڈز میں فراخدلانہ حصہ مخصوص کیا۔سرداروں کا یہ انتہائی موقع پرست طبقہ، مفاد پرست مراعات یافتہ حکومت کی مخالفت کی اور بلیک میل کرتارہا۔انہیں بلوچ ہونے پر ایک مشترکہ فخر تھا اور افغانستان کی اشرافیہ سے ان کے قریبی روابط تھے
وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں جنرل ضیاءالحق نے فوج کے سربراہ کے طور پر صوبے میں فوجی آپریشن میں شریک رہے۔ لیکن اقتدار سنبھالنے کے بعد جنرل ضیاء بلوچستان سے حمایت اور قانونی حیثیت حاصل کرنا چاہتے تھے۔ بھٹو نے معزول ہونے کے باوجود مری میں جنرل ضیاء کو بلوچستان سے فوج نہ نکالنے کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن اب، اقتدار کی کشمکش کے درمیان، حالات نے ضیاء کے لیے ایک چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔ وہ بلوچستان کی بدامنی کا خاتمہ چاہتے تھے۔
مئی 1978 میں جنرل ضیاء نے اس مسئلے کو اٹھایا اور بلوچستان کے حقائق کی زیادہ درست تصویر کشی کے لیے معلومات کی جانچ شروع کی۔ جن لوگوں سے ان کی ملاقات ہوئی ان سب نے دلیل دی کہ بلوچستان کے مسائل محض سیاسی نہیں بلکہ سماجی، مالی اور ترقیاتی بھی ہیں۔ انہی ملاقاتوں اور معلومات کی بنیاد پر جنرل ضیاء بلوچستان کے بارے میں بات کر رہے تھے، اور انہوں نے امید ظاہر کی تھی کہ کچھ معروضی اقدامات سے اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔
حیدر آباد ٹربیونل، جس میں کچھ بلوچ رہنما بھی ملوث تھے، پہلے ہی ختم ہو چکے تھے۔ بلوچستان کا دورہ کیے بغیر ، جنرل ضیاء نے بلوچ رہنماؤں کو راولپنڈی طلب کیا۔ 8 مئی کو غوث بخش بزنجو نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر سے ملاقات کی۔ حاصل بزنجو نے صوبے میں طویل فوجی آپریشن کی شکایت کے ساتھ سیاسی اور سماجی مسائل بیان کئے۔ سردار خیر بخش مری علالت کے باعث جنرل ضیاء سے ملاقات نہ کر سکے جبکہ سردار عطاء اللہ مینگل دور تھے۔ بزنجو نے جنرل کو بتایا کہ مرکز میں فوری طور پر قومی حکومت بنانا اس کا حل نہیں ہے۔ اس کے بجائے، انہوں نے دلیل دی کہ عام انتخابات کے بعد ایک منتخب حکومت قائم کی جائے۔ انہوں نے احتساب کی بھی مخالفت کی ۔
واپس کریں