سید عون مجتبی
روزِ اول سے عالمی طاقتوں کے التفات و اختلافات تمام تر دنیا پر اثر انداز ہوتے آ رہے ہیں۔ جس کی حالیہ مثال چائنا اور امریکہ کی باہمی رقابت ہے۔ حالیہ دنوں میں انہی مسائل کے جامع اور دیرپا حل کے لیے امریکی سیکرٹری سٹیٹ اینتھنی بلینکن ( Antony Blinken) اپنے دو روزہ دورے پر چائنا میں موجود ہیں ۔ اور یہ گزشتہ پانچ برسوں میں کسی بھی بڑے اور طاقتور امریکی عہدے دار کا واحد دورہ ہے۔ امریکی دفتر خارجہ کے مطابق سیکریٹری سٹیٹ کی چینی صدر شی جنگ پن(Xi Jinping) سے ملاقات بھی متوقع ہے۔
امریکی سیکرٹری سٹیٹ اینتھنی بلینکن کے حالیہ دورہ چین کے کیا مقاصد ہیں؟
موجودہ صورتحال میں امریکہ اور چائنا کے درمیان تین بڑے تنازعات اہمیت کے حامل ہیں۔۔
1- امریکہ کی ریاست تائیوان کی آزادی کی حمایت: گزشتہ کچھ عرصے سے سے امریکہ مسلسل تائیوان آزادی کی ایک منظم مہم چلا رہا ہے۔ یہ تنازعہ مارچ کے مہینے میں اس وقت شدت اختیار کر چکا تھا جب تائیوان کی صدر ٹیساہی انگ وین (Tsai Ing-wen) نے امریکی سرزمین پر اعلیٰ امریکی حکام سے ملاقات کی ۔ جسے چینی دفترِ خارجہ نے اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے دفاعی جنگ کے آغاز کا پیش خیمہ قرار دیا۔ جب کے اگلے روزِ امریکی صدر جو بائیڈن ( Joe Biden) نے چائنہ کے تائیوان پر ممکنہ حملے کو جارحیت قرار دیتے ہوئے انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے تعبیر کیا اور جنگ کی صورت میں تائیوان کو ممکنہ دفاعی امداد کی یقین دھانی کروائی۔
2- امریکہ اور چین کے درمیان دوسرے بڑے تنازع نے گزشتہ برس جنم لیا جب روس نے یوکرائن پر جنگی حملے کیا۔ اس حملے کے باعث امریکی حکام کی جانب سے روس پر سفارتی اور اقتصادی پابندیوں کا اعلان کیا گیا۔ جب کہ سپر پاور ہونے کے ناطے امریکہ سمجھتا ہے کے تمام دنیا میں ابھی بھی واحد پالیسی ساز ملک وہ ہی ہے اور دنیا کے تمام ممالک کو اسی کی پالیسیز پر عمل پیرا ہونا چاہیے ۔ چین جو گزشتہ نصف صدی سے روس کا عملی اور اسٹریٹجک اتحادی رہا ہے اور اب جب کے یہ اتحاد کا رشتہ اساسی بنیادوں سے ہوتا ہوا اقتصادی ترقی کا ضامن بن چکا ہے اُس کے لیے کیسے ممکن تھا کے اس مشکل وقت میں امریکہ کے کہنے پر روس جیسے اتحادی کا سوشل بائکاٹ کرے۔ چناچہ چین کے زیرِ اثر ممالک بشمول پاکستان امریکہ کے اس عمل سے الگ نظر آئے ۔ امریکہ اس کی تمام تر ذمےداری چین کے کندھوں پر ڈالتا ہے ۔
3- امریکہ اور چین کے درمیان تیسری سب سے بڑی وجہ تنازعہ جو تمام تنازعات کی جڑ ہے وہ چین کا بڑھتا ہوا اقتصادی اثر و رسوخ اور اُس سے منسلک سیاسی پہلو ہیں ۔ پچھلے پہچھتر سالوں سے چین نے اپنے آپ کو دنیا کی سیاست سے ظاہری طور پر الگ تھلگ رکھتے ہوئے صرف اور صرف اقتصادی میدان میں اپنی توانائیوں کو مرکوز رکھا اور اس کا سپر پاور امریکہ اور یورپی یونین کے کئی ممالک کو اقتصادی میدان میں شکست دینا پہلے ہی امریکہ کے سینے پر مانگ دل رہا تھا۔ چین کا اسی اقتصادی ترقی کو سفارتی محاذ پہ استعمال نے امریکہ اور چین کی باہمی رقابت پے جلتی کا کام کیا ۔ اسی ضمن میں سعودی عرب اور ایران کی صلح چین کی بڑی سفارتی کامیا بی کے ساتھ ساتھ ایک خاموش پیغام بھی ہے کہ آئندہ دنیا میں طاقت کا توازن چین کے بغیر ممکن نہیں۔
اگرچہ موجودہ صورتحال میں سیکریٹری سٹیٹ کے دورے سی وقتی طور پر کچھ خاطر خواہ فوائد حاصل نہیں ہوں گے مگر یہ مستقبل کی کسی بڑی کامیابی کے لیے لیے راہ ہموار کر سکتا ہے۔
واپس کریں