سید عون مجتبی
شبّر زیدی عمران خان کے بے تلکلف دوستوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کا شمار اُن خوش قسمت ٹیکنو کریٹس میں کیا جاتا ہے جنہیں اسٹبلشمنٹ کا اعتماد حاصل ہے ۔ ایسٹبلشمنٹ ان کی رائے کو اہمیت دینے کے ساتھ ساتھ قابل عمل بھی خیال کرتی ہے ۔ انہی وجوہات کی بدولت شبّر زیدی عمران خان کے دور حکومت میں چیئرمین ایف بی آر تعینات ہوئے ۔ گزشتہ دنوں شبّر زیدی نے اپنے دورِ حکومت کے دوران ٹیکس کلیکشن میں پیش آنے والے کُچھ ہوش روبہ مسائل کا تذکرہ کیا ۔۔
شبّر زیدی کے مطابق پاکستان میں ریٹیلر اور آڑھتی ملکی معیشت کے تقریباً 40 فیصد کے مالک ہیں اور ان پر ٹیکس نہ ہونے کے برابر ہے، ہم ان سے ٹیکس اس لیے نہیں لے سکتے کیوں کہ وہ ایک بازار مافیا ہیں اگر ہم ہاتھ ڈالتے ہیں تو وہ شٹر ڈاؤن کر دیتے ہیں۔ فوجی حکومت سمیت کوئی بھی حکومت اتنی طاقتور نہیں ہے کہ وہ شٹر پاور سے لڑ سکے۔ شٹر پاور سے لڑے بغیر پاکستان کا ٹیکس نظام صحیح نہیں ہو سکتا۔ عمران حکومت میں میرے اور ٹریڈرز کے درمیان پہلا تصادم اسی بات پر ہوا۔ اس وقت عسکری ادارے کے ڈی جی سی کے دفتر میں میری تاجر نمائندوں کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ ان کی جرات دیکھیں کہ تاجروں کے نمائندے نے ڈی جی سی کے سامنے کھڑے ہو کر کہا کہ میری سیل 100 روپے اور میں اس پر 50 پیسے ٹیکس دیتا جو بجلی کا میٹر لیکن شبر زیدی مجھ سے 100 روپے پر 15 روپے ٹیکس مانگ رہے ہیں جو میں نہیں دوں گا، چاہے آپ کچھ ہی کیوں نہ کر لیں، اس پر ڈی جی سی صاحب نے مجھ سے کہا کہ آپ اسے ڈیفر کریں، ہم آپ سے بعد میں بات کریں گے۔
انجمن تاجران اور ریٹیلرز کے دو تین بڑے بنیادی مسائل ہیں، یہ جب ٹیکس میں جائیں گے تو ان کا پورا کاروبار عملے کے سامنے کھل جائے گا، یہ اسمگل اشیا بیچتے ہیں، ان اشیا کو بیچ رہے ہیں جن پر ٹیکس نہیں ہے، یہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی اشیا بیچ رہے ہیں، کراچی میں کئی چیزیں اسمگل شدہ ہیں، یہ کسی قسم کی دستاویزی شکل میں جانے کو تیار ہی نہیں ہیں ۔ کراچی میں کلفٹن کے علاقے میں ایک مارکیٹ میں سلک کا کپڑا ملتا ہے، پاکستان میں سلک کا سارا کپڑا اسمگل شدہ ہے، وہ بیچارہ ٹیکس کہاں سے دے گا جس کی تمام اشیا ہی اسمگل شدہ ہیں۔
پاکستان میں دوسرا بڑا ٹیکس چور مافیا بڑے کسان ہیں۔ اور یہ تمام سیاسی لوگ ہیں انکا سیاسی اثر و رسوخ انہیں ٹیکس نہ دینے سے بچاتا ہے۔ سندھ میں زرعی انکم ٹیکس کا کوئی ڈپارٹمنٹ ہی نہیں جب کے پنجاب میں یہ بورڈ آف ریونیو کو دیا گیا جن کو اس کی الف ب بھی نہیں آتی، کچھ لوگ رضاکارانہ طور پر دے جاتے ہیں لیکن کوئی سیاسی حکومت زرعی انکم ٹیکس کی ریکوری میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔ میں نے زرعی انکم ٹیکس کے حوالے سے ہی ملتان کے ایک بڑے زمیندار کو نوٹس بھیجا جس پر شاہ محمود قریشی کی قیادت میں ایک 46 رکنی وفد میرے دفتر آیا جس میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے رکن قومی اسمبلی بھی شامل تھے، اس ملاقات کے دوران ایک 90سال کے بزرگ سیاستدان نصراللہ دریشک نے مجھے کہا کہ تو بہت چھوٹی عمر کا آدمی ہے، یہ تیرے بس کا کام نہیں ہے تو اسے چھوڑ دے، ہم جنوبی پنجاب کے رکن قومی اسمبلی ہیں، ہمارے بغیر حکومت نہیں چل سکتی، تو ابھی بچہ ہے، میں نے بڑی حکومتیں دیکھی ہیں، تو اسے چھوڑ دے، یہ تیرا بس کا کام نہیں ہے۔
پاکستان میں تیسرا بڑا ٹیکس چور طبقہ اسمگلرز کا ہے بارڈر سے لیکر سکھر تک تمام افراد اسی پیشے سے منسلک ہیں ۔ میں نے کوئٹہ میں اسمگلنگ پر ہاتھ ڈالا تو میرے پاس سدرن کمانڈ کے کمانڈر آئے جنہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ اسے ذرا ’سلو‘ کریں کیونکہ اگر آپ اس سے سختی سے نمٹتے ہیں تو سیاسی طور پر چیزیں بگڑ جاتی ہیں، اس علاقے میں لوگوں کے پاس روزگار نہیں ہے۔ اگر ہم اسمگلنگ کو بالکل ختم کر دیتے ہیں تو وہاں امن و امان اور روزگار کا مسئلہ پیدا ہوجائے گا۔ پاکستان میں سالانہ ساڑھے چار ٹن سونے کی کھپت ہے جو مارکیٹ میں نیا آتا ہے، ایک تولہ بھی امپورٹ نہیں ہوتا، یہ کہاں سے آتا ہے، یہ کون لاتا ہے، جب میں نے جیولر کے ساتھ پنگا لیا تو اس نے کہا کہ میں آپ کو ٹیکس دینے کو تیار ہوں لیکن جب میں سونا اسمگل شدہ لے کر بیچ رہا ہوں اور گولڈ کی رسید نہیں دکھا سکا تو ٹیکس کیسے دوں گا، یہی وجہ ہے کہ ریٹیلرز میں سب سے کم ٹیکس جیولرز سے آرہا ہے۔
صوابی اور مردان میں سارے اراکین قومی اسمبلی پی ٹی آئی کے تھے، اسد قیصر نے مجھ سے کہا کہ ان سے مل لیں، میں نے ان سے کہا کہ میں یہ 500 روپے کو صفر کر دیتا ہوں لیکن آپ مجھے اس فیکٹری کو رجسٹر کرنے دیں جہاں یہ تمباکو ابلتا ہے تو انہوں نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا، آپ ہمارے علاقے میں داخل نہیں ہو سکتے، پاکستان میں 30فیصد سگریٹ جعلی ہے جس کی ڈیوٹی کا ریٹ 74فیصد ہے۔
قبائلی علاقوں میں اسٹیل ری رولنگ کی ملوں پر ہاتھ ڈالا، یہ سارا اسکریپ پنجاب سے فاٹا لے کر جاتے ہیں، یہ وہاں بجلی کا بل اور ٹیکس سمیت کچھ بھی نہیں دیتے اور جمرود کے ساتھ وہاں فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں، یہ وہاں سریہ بنا کر پاکستان میں بیچتے ہیں، یہ اگر سریا وہیں بیچیں تو اس کی اجازت ہے لیکن پاکستان میں بیچنے پر ان پر ٹیکس لگتا ہے جو وہ ادا نہیں کرتے۔ جب میں نے ان پر ہاتھ ڈالا تو انہوں نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا، فاٹا کے 20 سینیٹرز عمران خان کے پاس آ کر بیٹھ گئے کہ شبر صاحب کو روکیں لیکن میں نہیں مانا، یہ وہ چیز ہے جس پر میرا اور عمران خان کا اختلاف ہوا.
واپس کریں