سید عون مجتبی
حماس حرکت المقاوۃ الاسلامیہ کا مخف ہے جس کے معنی اسلامی مزاحمتی تحریک کے ہیں۔ حماس فلسطین کی سب سے بڑی اسلامی قومیت اور بنیاد پرست جماعت ہے۔حماس عربی زبان کا لفظ بھی ہے جس کے معنی"جوش" کے ہیں۔ انتظامی طور پر حماس کو دو بنیادی گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔پہلا گروہ فلاحی و معاشرتی امور جیسے کہ اسکولوں اسپتالوں اور مذہبی اداروں کی تعمیر کی ذمے داری ادا کر رہا ہے۔ جبکہ دوسرا گروہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کا ذمے دار ہے۔ اسرائیل کے خلاف کارروائیاں زیادہ تر فلسطین کی زیر زمین عزالدین القسام بریگیڈ سر انجام دیتی ہے۔
تنظیم کی جڑیں 1970 کی دہائی کے آخر تک ملتی ہیں، جب غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں 1967 میں اسرائیل کے قبضے کے بعد کارکنوں نے خیراتی ادارے، کلینک اور اسکول قائم کیے تھے۔ حماس کا باقاعدہ قیام دسمبر 1987 میں شیخ احمد یاسین نے پہلی انتفاضہ کے نام سے جانے والی فلسطینی بغاوت کے آغاز کے بعد کیا تھا۔ اگلے سال حماس نے اعلان کیا کہ فلسطین کو اسرائیلی قبضے سے آزاد کرانا ہر مسلمان کا مذہبی فریضہ ہے۔ حماس نے اسرائیل کے خلاف اپنا پہلا حملہ 1989 میں کیا، جس میں دو اسرائیلی فوجیوں کو اغوا کر کے قتل کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں اسرائیل نے شیخ احمد یاسین کو گرفتار کر لیا۔ جنہیں پھر 1997 میں موساد کے ایجنٹوں کے بدلے رہا کیا گیا جنہوں نے اردن میں حماس کے سیاسی بیورو چیف خالد مشعل کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔
1993 میں اسرائیل فلسطینی نیشنل اتھارٹی کے سابق صدر یاسر عرفات کی تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) نے ایک دوسرے کی حیثیت تسلیم کرتے ہوئے اوسلو امن عمل کا اہتمام کیا ۔ تو حماس نے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اعلانِ کیا کے حماس اوسلو امن معاہدے کی مخالف ہے اوراسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتی۔ مزید یہ کےتنظیم کے شارٹ ٹرم مقصد مقبوضہ فلسطینی علاقوں سےاسرائیل کا مکمل انخلاء شامل ہے جبکہ لونگ ٹرم ہدف ایک ایسی فلسطینی ریاست کا قیام ہے جو ان عرب علاقوں پر مشتمل ہو جن کا بیشتر حصہ سن اڑتالیس میں یہودی ریاست کے قیام کے بعد سے اسرائیل کا حصہ ہے۔ تاہم یاسر عرفات اور انکی الفتح پارٹی یہ مطالبہ کرتے رہتے ہیں کہ حماس ان کی حکومت کو واحد بااختیار ادارے کے طور پر تسلیم کرے اور اسرائیل کےخلاف فوجی کاروائیاں بند کر دے۔ حماس یہ مطالبات ماننے سے تو انکار کرتی ہے لیکن قومی یکجہتی کے نام پر یاسر عرفات کی پارٹی کے خلاف لڑنے سے بھی گریز کرتی ہے۔ یاسر عرفات کی حکومت حماس کو اپنا مدِمقابل سمجھتی تھی ۔
حماس نے 2005 میں سیاست میں قدم رکھا، اور اگلے سال پارلیمانی انتخابات میں اپنے حریف فتح کو شکست دے کر ھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ حماس مسلح مزاحمت کی حمایت کر رہی ہے، الفتح مذاکرات کو ترجیح دے رہی ہے۔ اسی اختلاف کے سبب دونوں جماعتیں مل کر کام نہ کرسکیں- اور دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف شدید جنگ کی۔ جنگ کے بعد حماس نےغزہ کا کنٹرول سنبھال لیا۔ حماس کا غزہ کی پٹی پر کنٹرول ہے، جب کہ فتح پارٹی کے غلبے والی فلسطینی اتھارٹی مغربی کنارے کے جزوی طور پر خود مختار علاقوں پر حکمران ہے۔ اس کے بعد سے فلسطین ایک اندرونی سیاسی تقسیم کا شکار ہے۔
غزہ کی پٹی دنیا کے سب سے زیادہ گنجان آباد علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔آبادی کا بڑا حصہ شدید غربت کا شکار ہے اور انسانی بنیادوں پر حاصل ہونے والی امداد پر انحصار کرتا ہے۔ حماس نے غزہ سے اسرائیل پر اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
حالیہ کشیدگی سے پہلے حماس اور اسرائیل کے درمیان چار بڑی مسلح جنگیں ,2014,2021 2008,2012 میں ہو چکی ہیں۔
گزشتہ برسوں کے دوران، حماس کا مسلح مزاحمت پر انحصار کم گیا ہے، لیکن وہ فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کے لیے اپنی لڑائی کے لیے پرعزم ہے۔ یورپی یونین اور امریکہ دونوں حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں، جبکہ دوسرے اسے ایک مزاحمتی تحریک کے طور پر دیکھتے ہیں۔
واپس کریں