دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آخر اِنسانیت کربلا سے محبت کیوں کرتی ہے؟
 سید عون مجتبی
سید عون مجتبی
کیا صرف مُسلمان کے پیارے ہیں حُسین ، چرخِ نوعِ بَشَر کے تارے ہیں حُسین،انسان کو بیدار تو ہو لینے دو ، ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں حسین
حضرت جوش ملیح آبادی کے یہ اشعار تاریخ آدمیت میں ایک سند کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ہر ذی شعور انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ واقعہ کربلا خطے عرب کی سرزمین عراق پر وجود میں آیا ، جس میں ہاشم کی نسل اور دینِ اسلام سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے۔ مگر ایسا کیوں کہ ہر انسان کربلا سے محبت کرتا ہے خواہ اس کا مذہب ملت ملک و معشیت اور ثقافت کُچھ بھی ہو۔ اس انسیت کی بنیادی وجوہات میں وہ عالم گیریت ہے جو واقعہ کربلا اپنے دامن میں سمائے ہوئے ہے جو اسے تمام دنیا کے دوسرے واقعات سے مختلف اور ممتاز کرتا ہے۔
۱- انسانی فطرت ظالم سے نفرت اور مظلوم سے ہمدردی سے لبریز ہے۔ ہم اگر کسی بھی واقعے کے کرداروں سے واقفیت نہ رکھتے ہوں مگر پھر بھی ظالم سے نفرت اور مظلوم سے ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام پر جو مظالم ہوئے اُنکی مثال تاریخِ عالم میں نا پید ہے۔ امامِ مظلوم نے اپنے قلب نازنین پر بھائی بیٹوں جان نثاروں عزیزوں رشتے داروں کے غموں کے ساتھ ساتھ چھ ماہ کے شیر خوار حضرت علی اصغر کے مصائب بھی برداشت کیے ۔ مگر یہ تمام الام ومصائب بھی آپ کو کسی فاسق و فاجر ظلم و جابر کی اطاعت و بیعت پر مجبور نہ کر سکے ۔
۲- امام مظلوم کی یہ قربانی بے بسی کی قربانی تھی جس طرح جنگل میں ڈاکو کسی اکیلے شخص پر حملہ کر کے اُس کا مال و اسباب لوٹ لیں اور اسے قتل کر دیں۔ اس تمام واقعے میں وہ شخص ہے اختیار تھا ۔ بلکہ امام مظلوم نے یہ قربانی اپنے اختیار اور ارادے سے خدمتِ خداوندی ایک عظیم مقصد کے لیے ایک لا ریب نظریے کے تحفظ میں پیش کی۔ اس نظریے کی عمارت حق پرستی اور حق پراداری، انسانی آزادی کے انسانی اوصاف پر قائم ہے اور جبر و استبداد اور غلبے کی حکومت طاقت کے جبر کے انکار سے مزین ہے ۔ قربانی کی مختلف اقسام ہیں اور سب سے بڑی قسم اپنی جان کی قربانی ہے۔ لوگوں کی نظر میو کسی بھی انسان کی قدرو منزلت میں اور اضافہ ہو جاتا ہے جب وہ انسان اپنے مقصد و ہدف کو حاصل کرنے کے لئے لگاتار مصائب برداشت کرنے کے باجود ثابت قدم ہو، اور اس کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئے۔
۳- امام حسین علیہ السلام کی قربانی تمام مزاہب کے نزدیک قابلِ احترام ہے کیوں کے تمام مزاہب کا مقصد انسانی اخلاق و تہذیب اور تکمیلِ بشریت ہے۔ امام حسین علیہ السلام کی تحریک کسی مذہب کو مٹانے یا کسی مذہب کے نفاذ کے لیے نہیں تھی بلکہ ایک ہی مذہب کے ماننے والوں میں موجود ظاہری برائیوں ک خاتمےکیلئے تھی۔ یقین اگر امام مظلوم کے مقابل کسی اور مذہب کے افراد ہوتے تو اس مذہب کے پیروکاروں کی امام مظلوم سے مخاصمت ضرور پیدا ہوتی اور کربلا کے حوالے سے جو عمومی ہمدردی کا جذبہ ہے وہ قائم نہ رہ پاتا ۔
یہ کربلا ہے یہاں بات بھی نئی ہوگی
یہاں چراغ بجھے گے تو روشنی ہوگی
۴- امام حسین علیہ السلام کے ساتھی اور جانثار اعلی اخلاقی محاسن جیسے ایثار و محبت، قربانی کا جذبہ ، مصائب پر صبر ، استقلال اور عزم و ہمت ، وفاداری کی لا شریک مثال ہیں۔ ان اوصاف کو تمام بشر یکساں طور پر پسند کرتے ہیں اور ان اوصاف کے حامل افراد کو اپنے لیے مشعل راہ سمجھتے ہیں ۔ اور انہی خصوصیات کے ساتھ اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں ۔ امام مظلوم کی ذات اور آپ کے اصحاب با وفا ان خصوصیات کے حامل اعلی افراد تھے جنہوں نے چودہ سو سال سے ذہن انسانی پر لاتعداد نقوش چھوڑے ہیں ۔
یہ وہ بنیادی اور اجتماعی عوامل ہیں جن کی وجہ سے اِنسانیت آج تک کربلا کو نہیں بھول سکی ۔ اور ماہ محرم کے اغاز سے ہی دنیائے عالم میں موجود تمام انسان امامِ مظلوم سے اظہارِ عشق و عقیدت کرتے ہوئے آپ کی یاد میں رسمِ عزا برپا کرتے ہوئے یہ پیغام دیتے ہیں
ہر دل میں یا حسین ہر دل میں کربلا
ہمارے ہیں یا حسین ہمارے ہیں یا حسین
ہاں تھام کو حسین کے دامن کو تھام لو
واپس کریں