سید عون مجتبی
ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکی صدارت سنبھالتے ہی افغانستان سے امریکی انخلاء کا اعلان کیا۔ اس سلسلے میں امریکہ کو تین بڑی رکاوٹوں کا سامنا تھا۔ طالبان کے مختلف دھڑوں کے لیے مذاکرات اور افہام و تفہیم، طالبان اور افغان حکومت کے درمیان جنگ بندی و طاقت کا توازن، اور امریکی انخلاء کے بعد پر امن اقتدار کی منتقلی ۔ امریکہ کے راستے کی یہ پہاڑ جیسی مشکلات کو صرف پاکستان ہی دور کر سکتا تھا۔ چناچہ جون 2019 میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان کو دورہ امریکہ کے لئے مدعو کیا۔ جیسے وزیرِ اعظم پاکستان نے شرفِ قبولیت بخشا ۔
جولائی 2019 کے وسط میں وزیرِ اعظم اپنے تین روزہ دورے پر امریکہ روانہ ہوئے ۔ ان کے سب سے بڑے محسن اور اُس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید بھی اُن کے ہمراہ تھے ۔ جب کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اور مشیر قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف کچھ روز پہلے ہی وزیرِ اعظم کے استقبال کے لیے امریکہ پہنچ چکے تھے۔ دفتر خارجہ کی جاری کردہ تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم کی امریکی صدر ، سیکریٹری سٹیٹ ، کمانڈر سینٹکوم ، پینٹاگون چیف ، عالمی مالیاتی ادارے اور ورلڈ بینک کے سربراہان سے وزیرِ اعظم کی ون آن ون ملاقاتیں شیڈیول کا حصہ تھی ۔ جب کے اول آفس میں صدر ٹرمپ کے ساتھ ایک برائے راست پریس بریفننگ کا بھی خصوصی اہتمام کیا گیا تھا ۔
وزیرِ اعظم کے دورِ کے آغاز میں ہی امریکی حکام نے واضع کر دیا تھا کے امریکہ پہلے مرحلے میں چاہتا ہے کہ پاکستان افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے ۔ اور طالبان بین الافغان مذاکرات میں معنی خیز طریقے سے شرکت کریں ۔ وزیرِ اعظم نے امریکی حکام کی اس تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے اعادہ کیا پاکستان میں امن افغانستان کے امن سے مشروط ہے۔ اسی لیے اس سلسلہ میں پاکستان امریکہ کی ہر ممکن مدد کرنے کو تیار ہے۔ امریکی حکام نے پاکستان میں جاری سی پیک منصوبوں اور چین سرمایہ کاری سے متعلق اپنے تحفظات سے بھی آگاہ کرتے ہوئے انہیں پاکستانی معیشت کے لیے زہرِ قاتل سے تشبیہ دی۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ا مشترکہ پریس کانفرنس وزیرِ اعظم عمران خان کو کہہ آپ سے پہلے لوگ ہماری بات نہیں مان رہے تھے تھے جب کہ آپ کے ساتھ مثبت پیش رفت ہوئی ہے آپ ایک اچھے انسان ہیں۔ میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان مسائل کے حل کے لیےثالثی کے لیے تیار ہوں۔ صدر ٹرمپ کی اس پیشکش کو بھارت نے فوری طور پر رد کر دیا جبکہ امریکی دفتر خارجہ نے اسے دو طرفہ مسئلہ قرار دیتے ہوئے ایسے کسی بھی امکان کویکسر مسترد کر دیا۔
پاکستان اس دورے کے دوران نہ ہی کوئی بڑا تجارتی اور دفاعی معاہدہ حاصل کر سکا اور نہ ہی کوئی بیرونی سرمایہ کاری مگر اس سب کے باوجود وزیر اعظم نے اسے ورلڈ کپ جیتنے سے تعبیر کیا۔ اور میڈیا اور سوشل میڈیا پر اسے کامیاب سفارت کاری اور خارجہ پالیسی کا ثمر قرار دیا گیا ۔
حالیہ دنوں میں بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی امریکہ کے دورے پر ہیں جہاں اب تک 35 سے 40 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدات جن میں 1200 ملین کمپیوٹر چپس مینوفیکچرنگ ، الیکٹرک کار مینوفیکچرنگ 650 ، سولر پاور انویسٹمنٹ 1.5 بلین، فائٹر جیٹ اسمبلنگ یونٹ، ڈرونز ، ایڈوانس کمپیوٹنگ ، آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور خصوصی ویزہ کے معاہدے شامل ہیں. مگر نریندر مودی نے انڈیا کے لئے کوئی ورلڈ کپ نہیں جیتا کیوں کہ وہ ہینڈسم نہیں ہے۔
واپس کریں