سید عون مجتبی
بلوچستان رقبہ کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا لیکن آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے۔ بلوچستان معدنیاتی دولت جیسے قدرتی گیس ، کوئلہ، سونے، تانبہ اونکس سے مالامال ہے لیکن یہاں کے عوام بے حد غریب اور پسماندہ ہیں، جب کے سردار عربوں پتی اور بے تاج بادشاہ ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق بلوچستان پتھر کے دور میں بھی آباد تھا۔ مہر گڑھ درہ بولان کے قریب سات ہزار سال قبل مسیح کے زمانہ کی آبادی کے نشانات ملے ہیں۔ سکندر اعظم کی فتح سے قبل بلوچستان کے علاقہ پر سلطنت ایران کی حکمرانی تھی اور یہ علاقہ ُ ماکا ، کہلاتا تھا۔ تین سو پچیس سال قبل مسیح میں سکندر اعظم نے عراق کے شہر بابل پر حملہ بلوچستان کے مشہور ریگستان مکران سے گزر کے گیا تھا۔اس زمانہ میں یہاں براہوی آباد تھے جن کا تعلق ہندوستان کے قدیم ترین باشندوں، دڑاوڑوں سے تھا۔
بعض روایات کے مطابق بلوچ آریائی نسل سے ہیں يا ایران کے راستہ کیسپئین سے بلوچستان آئے ۔ کچھ افراد کے مطابق یہ اسرائیل کے دس گم گشتہ قبائل میں سے ایک ہیں جو شام کے علاقہ حلب سے نقل وطن کرکے بلوچستان آ کر بسے ۔
حضرت علی کے دور خلافت کے دوران حضرت عثمان بن حنیف تبلیغ کے لیے بلوچستان کی ریاست قلات تشریف لائے۔ ان کی تعلیمات اور اعلیٰ اخلاق سے متاثر ہو کر اس وقت کے والی ریاست راجہ شنکل نے اپنے 70 ساتھیوں کے ہمراہ کوفہ کا سفر کیا اور حضرت علی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ یوں بلوچستان برصغیر میں اسلام کا پہلا مرکز بنا۔
برطانوی راج میں بلوچستان میں چار خودمختار ریاستیں قائم تھیں،ان میں قلات سب سے بڑی ریاست تھی۔ ان پر برطانوی ایجنٹ نگران تھا- قیام پاکستان کے پہلے سے بعد تک قائداعظم ؒمسلسل بلوچستان کے دورے کرتے رہے اور خوانین سے ملاقاتیں اور ان ریاستوں کے دربار عام سے خطاب بھی کرتے رہے۔اس مسلسل تگ و دو کے نتیجے میں 18مارچ 1948کوبلوچستان کی تین ریاستوں ،خاران،لسبیلہ اور مکران نے الحاق پاکستان کااعلان کردیا ۔
خان قلات میر احمد یار خان نے قیام پاکستان سے دو روز قبل چند دوسرے بلوچ سرداروں کی حمایت اور مشاورت سے اپنی ریاست کی مکمل آزادی کا اعلان کیا تھا اور پاکستان کے ساتھ خصوصی تعلقات پر مذاکرات کی پیشکش کی تھی- پاکستان نے خان قلات کے اس اقدام کو بغاوت سے تعبیر کیا اور پاکستانی افواج نے خان قلات اور ان کی ریاست کے خلاف کاروائی کی آخر کار مئی سن اڑتالیس میں خان قلات بذات خود کراچی میں تشریف لائے ،قائداعظم ؒسے ملاقات کی اور ریاست قلات کابھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ساتھ الحاق کااعلان کیا۔ خان قلات میر احمد یار خان پچھتر کی دہائی میں بلوچستان کے گورنر بھی رہے۔ ان کے چھوٹے بھائی شہزادہ میر عبدالکریم نے البتہ قلات کی پاکستان میں شمولیت کے خلاف مسلح بغاوت کی اور آخر کار انہیں افغانستان فرار ہونا پڑا۔
سن چھپن کے آئین کے تحت بلوچستان کو مغربی پاکستان کے ایک یونٹ میں ضم کر دیا گیا جس کے خلاف پھر خان قلات کی قیادت میں بلوچوں نے مزاحمتی تحریک شروع کی۔ایوب مارشل لا کے نفاذ سے صرف ایک دن پہلے یعنی 6 اکتوبر 1958 کو فوج نے خان قلات اور دوسرے ون یونٹ کے مخالف سرداروں کو گرفتار کر لیا، ون یونٹ توڑے جانے تک کسی نہ کسی شکل میں بلوچستان اور مرکزی حکومت کے درمیان تناؤ اور کشیدگی کا سلسلہ جاری رہا۔
سن ستر میں جب جنرل یحی خان نے مغربی پاکستان کا ون یونٹ توڑا تو بلوچستان ایک الگ صوبہ بنا اور پہلی بار ملک اور صوبے میں عام انتخابات منعقد ہوئے جن کے نتیجے میں بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی(نیپ) اور جمیعت العلماء اسلام کی مخلوط حکومت قائم ہوئی اور صوبائی وزیر اعلیٰ نیپ کے عطا اللہ مینگل بنے جبکہ گورنر غوث بخش بزنجو مقرر ہوئے۔ صوبائی حکومت نےسرکاری ملازمتوں اور تجارت و صنعت کے میدان میں بلوچوں کی تعداد بڑھانے کے لئے بعض اقدامات کئے تھے۔
وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو ایران کے سرکاری دورے پر گئے تو وہاں ایرانی حکام نے انہیں پاکستان اور ایران کے خلاف ہونے والی ایک سازش کے بارے میں بتایا۔ جس میں کچھ بیرونی طاقتیں پاکستانی اور ایرانی بلوچستانء سیستان زیدان کو ملا کر ایک آزاد اور عظیم تر بلوچستان کا نقشہ تیار کر چکی تھیں۔
کچھ دن بعد عراقی سفارتخانے سے بھاری تعداد میں اسلحہ پکڑا گیا جو بلوچستان کے شورش پسندوں کو پہنچایا جانا تھا_ اسکے فوراّ بعد 14 فروری 1973 کو بلوچستان کی مینگل حکوت کو برطرف کردیا گیا اور نواب اکبر بگٹی مرحوم کو بزنجو کی جگہ پر صوبے کا گورنر مقرر کردیا گیا۔انہوں نے گورنر بنتے ہی یہ اعتراف کرلیا کہ وہ مینگل اور بزنجو کے ساتھ اور غیر ملکی اسلحہ کی مدد سے بلوچستان کو آزاد کرانے کی کوشش کر رہے تھے۔
انہی دنوں صوبے میں موجود غیر بلوچ مزدوروں کے قتلِ عام اور حملوں نے شدت اختیار کی جن میں پٹ فیدر کے زرخیز علاقوں میں واقع غیربلوچوں کے فارموں پر حملوں کی بھی اطلاعت تھیں۔ جاموٹ قبیلے پر بھی حملہ کیا گیا جو نیپ حکومت کا مخالف تصور کیا جاتا تھا۔
ان تمام باتوں کی بناء پر نے مرکزی انتظامیہ میں یہ اندیشہ بھی ظاہر کیا جانے لگا کہ اگر انہیں مزید چھوٹ دی گئی تو مشرقی پاکستان والی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ چنانچہ فوج نے اس مبینہ شورش کو کچلنے کے لئے مئ 1973 میں کارروائی شروع کی جو بھٹو حکومت کے اختتام تک جاری رہی۔ اس میں ایک اندازہ کے مطابق 3 ہزار سے زیادہ فوجی اور اورپانچ ہزار سے زیادہ بلوچ مارے گئے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شہنشاہ ایران بلوچستان میں مینگل حکومت کے خلاف تھے اس کارروائی میں ایرانی ہیلی کوپٹروں نے بھی حصہ لیا۔
واپس کریں