سید عون مجتبی
پڑوسی ممالک کے ساتھ زمینی تجارت معاشی سفارتی اور سیکیورٹی لحاظ سے بُہت اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے۔ سمندر سے محروم افغانستان دنیا سے تجارت کی غرض سے پاکستان اور ایران کا محتاج ہے تاہم پاکستان افغانستان کے ذریعے وسطی ایشیاء کے ممالک تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ پاکستان افغانستان کے درمیان 15 شقوں پر مشتمل پہلا ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ 1965 میں طے پایا۔ اس ایگریمنٹ نے افغانستان کو پاکستانی بندرگاہوں کے ذریعے ڈیوٹی فری سامان درآمد کرنے کی اجازت دی ۔ 1965 میں یہ معاہدہ افغانستان کی خواہش پر عمل میں آیا جسے بعد میں 1992 اور 2010 میں یہ ترمیم کیا گیاہے۔
افغانستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ پاکستان میں سمگل ہونے والی اشیا کی تجارت کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ پاکستان افغانستان کے ساتھ سب سے بڑی سرحد شیئر کرتا ہے۔ جس کے تین پوائنٹس مرکزی اھمیت کے حامل ہیں ۔ چمن میں باب دوستی طورخم بارڈر اور وزیرستان میں غلام خان کراسنگ ۔ افغانستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کے تحت افغانستان میں درآمد کی جانے والی پاکستانی سرکاری اشیا کو اکثر بدعنوان اہلکاروں کی مدد سے دونوں ممالک کی مشترکہ غیر محفوظ سرحد کے ذریعے فوری طور پر واپس پاکستان میں سمگل کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں سامان کی غیر قانونی منتقلی کے علاوہ، افغانستان جانے والی اشیاء کو اکثر ٹرکوں سے وقت سے پہلے اتارا جاتا تھا اور مطلوبہ ڈیوٹی فیس ادا کیے بغیر پاکستانی منڈیوں میں سمگل کر دیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک پروان چڑھتی ہوئی بلیک مارکیٹ کی تخلیق ہوئی، جس میں زیادہ تر غیر قانونی تجارت کھلے عام ہو رہی ہے، جیسا کہ پشاور کی ہلچل سے بھری کارخانو مارکیٹ ان میں سرفہرست ہے، جسے بڑے پیمانے پر اسمگلروں کا بازار سمجھا جاتا ہے۔
کیونکہ سمگل شدہ اشیاء پر کوئی ٹیکس اور ڈیوٹی ادا نہیں کی گئی ہوتی اس لیے ان کی قیمت مقامی صنعت سے تیار شدہ اشیا سے کم ہوتی ہیں۔ اسی وجہ سے مقامی چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعت کو نقصان پہنچتا ہے۔ اور دوسری طرف ملک قانونی طور پر حاصل ہونے والے ٹیکسز سے بھی محروم رہ جاتا ہے۔ حکام کے مطابق گزشتہ سال ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے بڑی تعداد میں ایئر کنڈیشنرز اور ٹی وی سیٹس درآمد کیے گئے جو اسمگلنگ کے ذریعے خیبرپختونخوا، لاہور، کوئٹہ اور ملک کی دیگر مارکیٹس میں پہنچا دیے گئے۔ اگر یہی سامان تجارت کے ذریعے پاکستان پہنچتا تو اس مد میں صرف گزشتہ مالی سال کے دوران 185 ارب روپے کے ٹیکسز موصول ہوتے۔
افغان حکام ٹرانزٹ ٹریڈ کی اشیاء کی قیمتوں اور تعداد پر پاکستانی کسٹمز حکام سے غلط بیانی کرتے ہیں، افغان حکام کی غلط بیانی سے اشیا کی رپورٹ شدہ اور حقیقی قدر میں نمایاں فرق آتا ہے۔ ان اشیا کی درامد کے لیے زیادہ تر پاکستانی ذرائع مبادلہ حوالہ ہونڈی کے ذریعے خرید کر استعمال کیا جاتا ہے۔ کرنسی کی سمگلنگ سے پاکستان میں ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوتا ہے جو مہنگائی کو جنم دیتا ہے۔ سابق چیئرمین ایف پی ار شبر زیدی کے مطابق کوئٹہ اور پشاور کی کرنسی مارکیٹس اس مقصد کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ اس وجہ سے ملک قیمتی زرائع مبادلہ سے محروم رہ جاتا ہے اور ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے شبر زید کا دعوی ہے کہ اگر ٹرانزٹ ٹریڈ کو اچھے طریقے سے مینج کر لیا جائے تو ڈالر کی قدر240 سے 250 کے درمیان آ سکتی ہے۔
مالی سال 2021-22 کے دوران افغانستان نے ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے 4 ارب ایک کروڑ 60 لاکھ ڈالرز کی امپورٹس کیں۔ ایف بی آر کے مطابق صرف ایک سال میں افغانستان کی درآمد ات میں ڈھائی ارب ڈالر سے زائد کا حیران کن اضافہ ہوا۔ افغانستان نے 2022-23 میں ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے 6 ارب 71 کروڑ امریکی ڈالرز کی مصنوعات دنیا کے مختلف ممالک سے درآمد کیں۔ اس اضافے سے متعلق وزرات تجارت نے ایف بی آر کی مدد سے ایک خصوصی رپورٹ تیار کی تو انکشاف ہوا کہ افغانستان نے ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے اربوں ڈالر کاجو سامان امپورٹ کیا وہ بغیر ڈیوٹی ادا کیے واپس پاکستان اسمگل ہوا یا ان میں سے اکثر ٹرک اور کنٹینرز پاکستان میں خالی کیے گئے۔ بارڈر پوائنٹس پر ان خالی گاڑیوں کی صرف اینٹرز کی گئیں۔
رپورٹ کے مطابق افغانستان میں زیادہ تر لوگ سبز چائے یا قہوہ استعمال کرتے ہیں لیکن افغانستان جتنی چائے ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے درآمد کرتا ہے ان اعداد و شمار کے مطابق افغانستان کالی چائے کی پتی درآمد کرنے والا دنیا کا پانچواں ملک ہے۔ اسی طرح جتنی کراکری درآمد کی جاتی ہے وہ افغانستان کی ضرورتوں سے کہیں زیادہ ہے۔
آرمی چیف حافظ سید جنرل عاصم منیر کی خصوصی ہدایات پر ڈالر سمگلنگ کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ ملکی تاریخ میں پہلی بار ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے آنے والے سامان پر وزارت تجارت نے 10 فیصد ڈیویلپمنٹ ڈیوٹی بھی عائد کی ہے ۔ درآمد کرنےوالے تاجروں کو اب پاکستان میں سامان کے برابر بینک گارنٹی بھی مہیا کرتا ہوگی اور کسٹمز کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ کسی بھی مقام پر شک کی بنیاد پر افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی گاڑیوں کو چیک کرسکتے ہیں۔ ان تمام اقدامات کی وجہ سے ڈالر اب تک پچاس روپے کے قریب سستا ہوچکا ہے۔ اور مستقبل میں درآمدات سے حاصل ہونے والے محصولات میں بھی کافی اضافے کا امکان ہے ۔
واپس کریں