سید عون مجتبی
پچھلی کئی صدیوں سے فلسطین خلافت عثمانیہ کا حصہ تھا مگر پہلی جنگ عظیم میں خلافت عثمانیہ کو شکست ہوئی اور یہ خطہ فرانس اور برطانیہ نے اپس میں بانٹ لیا۔ فلسطین برطانیہ کے زیر انتظام تھا ۔ اس وقت یورپ میں دو عشروں پرانی صیہونی تحریک پروان چڑھ رہی تھی جس کا ماننا ہے کہ یہودیت صرف ایک مذہب نہیں بلکہ قوم بھی ہے اسی لیے ان کا اپنا ایک علیحدہ مذہب ہونا چاہیے اور اس وطن کا قیام سر زمین فلسطین میں ہو۔ ( تمام یہودی صیہونی سوچ نہیں رکھتے). 1897 میں ایک آسٹرین یہودی ٹھیوڈو ہرزل نے ایک پمفلٹ شائع کیا جس کا نام جیوڈن سٹاٹ ( یہودی ریاست) تھا۔ ہرزل کا کہنا تھا کہ یورپ میں یہودیوں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جا رہا ہے اور اس کا صرف ایک ہی حل ہے کہ یورپ سے نکل کر اپنا وطن حاصل کیا جائے۔ اگلے سال ہرزل نے پہلی صیہونی کانفرنس سوئٹزرلینڈ کے شہر بازل میں منعقد کی۔ اس کانفرنس میں یہ طے کیا گیا کہ فلسطین میں یہودی ریاست کا قیام کیا جائے گا اس مقصد کے لیے علاقے میں یہودی بستیوں کو اباد کیا جائے۔ کانگرس کے بعد یہودیوں نے فنڈ اکٹھے کرنا شروع کر دیے تاکہ وہ پیسے فلسطین میں یہودیوں کی منتقلی وہاں پر جائیدادوں کی خریداری اور عالمی طاقتوں کو قائل کیے جانے کے لیے استعمال کیا جا سکیں ۔
02 نومبر 1917 کو برٹش فورن سیکرٹری آرتھر بالفور نے ایک سڑسٹھ الفاظ کا مختصر خط لکھا ۔ خط میں فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کی تجویز منظور کی گئی تھی اور اس کی تکمیل کے لیے تمام تر وسائل پیش کیے گئے۔ اس وقت فلسطین میں یہودیوں کی ابادی صرف تین فیصد تھی جبکہ مسلمانوں کی ابادی 90 فیصد تھی۔ چنانچہ فلسطین کے قیام کے لیے زیادہ تر مسلمانوں کو یا تو بے گھر کیا جانے لگا یا قتل کیے جانے لگا۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد سے فلسطین برطانیہ کے قبضے میں تھا اور ہزاروں یہودی یورپ سے ہجرت کر کے فلسطین پہنچ رہے تھے۔ برطانوی راج یہودیوں کی سہولت کاری کر رہا تھا اس دوران یہودیوں نے فلسطین میں اپنی کالونی اباد کیں فیکٹریاں لگائیں۔ یہاں تک کہ اپنی جنگجو ملیشیا(فوج )بھی قائم کی اس کا نام ھگانا تھا یہی ملیشیا اگے جا کر اسرائیلی فوج کی بنیاد بنی۔ یہودیوں کی بڑھتی ابادی اور برطانوی راج کی کھل کر مدد نے فلسطینیوں کو یہ احساس دلانا شروع کر دیا کہ ان کا ملک خطرے میں ہے اور یہ اہستہ اہستہ ان سے چھینا جا رہا ہے۔ تنازع نے شدت اختیار کی تو 1936 میں عرب نیشنل کمیونیٹی نے ہڑتال کال دی۔ فلسطینیوں نے ٹیکس دینے سے انکار کر دیا اور یہودی پروڈکٹس کا بائیکاٹ کر دیا یہ احتجاج چھ ماہ جاری رہا ۔ حکومت برطانیہ نے اس احتجاج کو بری طرح کچلا ہزاروں لوگوں کو گرفتار کیا گیا سزائے موت دی گئی لیڈران کو ملک بدر کر دیا گیا اور گھروں کو مسمار کیاگیا۔ فلسطینیوں برطانیوں اور صیہونیوں کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئیں۔
معاملے کی انکوائری کے لیے لارڈ رابرٹ کی سربراہی میں پیل کمیشن قائم کیا گیا۔ پیل کمیشن نے 1937 میں اپنی رپورٹ پیش کی جس میں فلسطین کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی تجویز دی ۔ ایک حصہ عربوں کو دوسرا حصہ صیہونیوں کو جبکہ مقامات مقدسہ سمیت تیسرا حصہ انٹرنیشنل زون ڈیکلیئر کر کے حکومت برطانیہ کے قبضے میں رکھنے کی تجویز دی گئ ۔ کمیشن کی رپورٹ کو عربوں نے ماننے سے انکار کر دیا اور مزاحمت جاری رکھی 1936 سے 1939 تک تین سال میں 5 ہزار فلسطینی قتل بیس ہزار سے زیادہ زخمی اور چھ ہزار کے قریب افراد کو قید کر دیا گیا ۔ معاملات ہاتھ سے نکلنے لگے تو حکومت برطانیہ نے ایک نئے کمیشن کے قیام کے ساتھ وائٹ پیپر جاری کیا اور فلسطین کی تقسیم کو مسترد کر دیا۔ اور اگلے 10 برس میں فلسطین کو یہودیوں اور مسلمانوں سمیت ازاد کرنے کا اعلان کر دیا۔ یہودیوں کی ہجرت کو پانچ سال کے لیے محدود اور عربوں کی رضامندی سے مشروط کر دیا گیا۔ برطانیہ نے یہودیوں کی زمین خریدنے پر پابندی لگا دی۔
صیہونیوں کو یہ وائٹ پیپر ہضم نہ ہوا اور انہوں نے برطانیہ کے خلاف بغاوت کر دی اور عربوں پر حملے بھی تیز کر دیے۔ ان حملوں اور بم دھماکوں کے نتیجے میں کئی فلسطینی جان سے گئے ۔ اسی دوران دوسری جنگ عظیم شروع ہو گئی اور یہودیوں کا ہولوکاسٹ شروع ہو گیا۔ نازیوں سے بچنے کے لیے یہودی یورپ چھوڑنے لگے اور برطانوی پابندیوں کے باوجود بڑی تعداد میں فلسطین میں منتقل ہونے لگے۔ جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد فسادات میں مزید اضافہ ہونے لگا۔ صیہونی ملیشیا عربوں اور برطانوی فوجوں کو مسلسل ٹارگٹ کر رہی تھی۔ جب بات برطانیہ کے ہاتھ سے نکل گئی تو انہوں نے 1947 میں فلسطین کو ازاد کر دیا اور فلسطین کا معاملہ اقوام متحدہ پر چھوڑ دیا۔ برطانوی راج میں یہودیوں کی ابادی 30 فیصد تک ہو گئی تھی مگر ان کے زیر قبضہ صرف چھ فیصد زمین تھی۔ فلسطین میں صیہونیوں کی ایک خود ساختہ حکومت تھی جس کی ملیشیا ایک فوج کی طرح کام کرتی تھی۔ جس کے آفیسرز ورلڈ وار بھی لڑ چکے تھے ان کے پاس غیر ملکی حکومتوں کو لابی کرنے کے لیے سفارت کاری کا تجربہ اور پیسہ بھی تھا جبکہ دوسری جانب عربوں کے پاس نہ پیسہ تھا نہ سفارت کاری کا تجربہ اور نہ ہی انہیں اپنی حفاظت کے لیے ملیشیا بنانے کی اجازت تھی۔ 1936 کی بغاوت کے بعد عربوں سے ہتھیار بھی چھین لیے گئے تھے۔
نومبر 1947 میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک حصہ عربوں کو جب کہ دوسرا حصہ صیہونیوں کو تیسرا حصہ مقامات مقدس کو سپیشل انٹرنیشنل زون ڈکلیئر کر دیا گیا۔ اقوام متحدہ نے 30 فیصد یہودیوں کو فلسطین کا 55 فیصد علاقہ دے دیا۔ یہودیوں کے حوالے کیے گئے علاقے میں بھی مسلمان اکثریت میں تھے۔ فلسطین نے اور عرب ریاستوں نے تقسیم کو ماننے سے انکار کر دیا۔ یہودیوں کو معلوم تھا کہ برطانیہ کے جانے کے بعد سب سے زیادہ فوجی طاقت ان کے پاس ہے تو انہوں نے تیزی سے مسلمانوں کو علاقے سے بے دخل کرنا شروع کر دیا۔ فلسطینیوں کی گرفتاریاں اور قتل عام جاری تھا۔ فلسطینی اس سب کو النکبہ کے نام سے یاد کرتے ہیں جس کا مطلب ہے آفت ۔ 14 مئی 1948 کو اسرائیل نے اپنی ازادی کا اعلان کیا۔ فلسطین سمیت عرب ریاستوں نے اس اعلان ازادی کو ماننے سے انکار کر دیا اور اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ اسرائیل یہ جنگ جیت گیا اور جنگ کے اختتام پر 78 فیصد علاقے پر قابض ہو چکا تھا۔ جنگ کے اختتام پر فلسطین کی 40 فیصد ابادی پناہ گزین بن چکی تھی۔
واپس کریں