دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اچھا حکمران کون ہے ؟ امام علی کا مالک اشتر کو خط
 سید عون مجتبی
سید عون مجتبی
یہ خط امیر المومنین حضرت علی نے 657 عیسوی میں حضرت مالک اشتر کو مصر کا گورنر تعینات کرتے وقت تحریر فرمایا۔ امیرالمومنین امور سلطنت کے بنیادی اصول و ضوابط اور انسانی حقوق کا احاطہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں "اے مالک رعایا میں تمہارے دو طرح کے بھائی ہیں ایک تمہارے دینی بھائی جبکہ دوسرے تمہارے انسانی بھائی۔ رعایا کی فلاح و بہبود اور شہری آبادیوں کا انتظام کرو،ان کےدشمنوں سے جنگ کرو۔ رعایا کے لیے اپنے دل میں لطف و محبت اور رحم و رافت کو جگہ دو۔ ان کی لغزشیں بھی ہوں گی، خطاؤں سے بھی انھیں سابقہ پڑے گا اور ان کے ہاتھوں سے جان بوجھ کر یا بھولے چوکے سے غلطیاں بھی ہوں گی"
ایک ویلفیئر اسٹیٹ وہ ہوتی ہے جو اپنے تمام شہریوں کو برابر سمجھتی ہے ۔ اور بلا تفریق رنگ و مذہب کے ان کی خدمت و خوشحالی کیلئے اپنے تمام تر وسائل استعمال کرتی ہے۔ امیر المومنین نے حاکم کو رعایا کا بھائی قرار دیا ہے جس کا مطلب ہے حاکم اور رعایا برابر ہیں کیوں کے دونوں بھائی آپس میں برابر ہوتے ہیں، دونوں میں کوئی افضل یا کمتر نہیں ہوتا۔ آپ کے ارشاد کے مطابق غیر مسلم انسانی بھائی ہیں یعنی اُنکو بھی وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو مسلمانوں کو حاصل ہیں وہ اپنے مذہب کی پیروی اور اس کے مُطابق زندگی گزارنے میں آزاد ہیں۔ رعایا کی فلاح و بہبود اور شہری آبادیوں کے انتظام سے مراد بنیادی ضروریات کی فراہمی ہے۔
"اے مالک غصہ میں جلد بازی سے کام نہ لو، جبکہ اس کے ٹال دینے کی گنجائش ہو۔ کبھی یہ نہ کہنا کہ میں حاکم بنایا گیا ہوں، لہذ میرے حکم کے آگے سر تسلیم خم ہونا چاہیئے .(یعنی اسلام میں ڈکٹیٹرشپ کی کوئی گنجائش نہیں) اپنی خواہشوں پر قابو رکھو اور جو مشاغل تمہارے لیے حلال نہیں ہیں ان میں صرف کرنے سے اپنے نفس کے ساتھ بخل کرو۔کبھی حکومت کی وجہ سے تم میں تمکنت یا غرور پیدا نہ ہو۔ اپنی ذات کے بارے میں اور اپنے خاص عزیزوں اور رعایا میں سے اپنے دل پسند افراد کے معاملے میں حقوق اللہ اور حقوق الناس کے متعلق بھی انصاف کرنا( یعنی خود پسندی اور اقربا پروری سے اجتناب کرو اور کسی دوسرے کا حق اُنکو نہ دو)۔ کیونکہ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ظالم ٹھہرو گے اور جو خُدا کے بندوں پر ظلم کرتا ہے تو بندوں کے بجائے اللہ اس کا حریف و دشمن بن جاتا۔اور جس کا وہ حریف و دُشمن ہو، اس کی ہر دلیل کو کچل دے گا اور وہ اللہ سے بر سر پیکار رہے گا۔ یہاں تک کہ باز آئے اور توبہ کرلے اور اللہ کی نعمتوں کو سلب کرنے والی، اس کی عقوبتوں کو جلد بلاوا دینے والی، کوئی چیز اس سے بڑھ کر نہیں ہے کہ ظلم پر باقی رہا جائے، کیونکہ اللہ مظلوموں کی پکار سنتا ہے اور ظالموں کے لیے موقع کا منتظر رہتا ہے۔ "
"انصاف کے لحاظ سے سب کو شامل اور رعایا کے زیادہ سے زیادہ افراد کی مرضی کے مطابق ہو ، کیونکہ عوام کی ناراضگی خواص(طاقتور بڑے لوگ) کی رضامندی کو بے اثر بنا دیتی ہے اور خواص کی ناراضگی عوام کی رضامندی کے ہوتے ہوئے نظر انداز کی جاسکتی۔(یعنی عوام کی فلاح و بہبود کو خواص کے مفادات پر ترجیح دو۔)۔ تمہاری پوری توجہ اور تمہارا پورا رخ انہی (عوام) کی جانب ہونا چاہیئے اور تمہاری رعایا میں تمہیں نا پسند وہ ہونا چاہیے جو لوگوں کی عیب جوئی میں زیادہ لگارہتا ہو۔ کیونکہ لوگوں میں عیب تو ہوتے ہی ہیں۔ حاکم کے لیے انتہائی شایان یہ ہے کہ ان پر پردہ ڈالے۔ لہذا جو عیب تمہاری نظروں سے اوجھل ہوں انھیں نہ اچھالنا.کیونکہ تمہارا کام انہی عیبوں کو مٹانا ہے کہ جو تمہارے اوپر ظاہر ہوں (یعنی معاشرے اور لوگوں کی اصلاح و تربیت) اور جو چھپے ڈھکے ہوں ان کا فیصلہ اللہ کے ہاتھ ہے۔ اس لیے جہاں تک بن پڑے عیبوں کو چھپاؤ "
"لوگوں سے کینہ کی ہر گرہ کو کھول دو اور دشمنی کی ہر رستی کاٹ دو اور ہر ایسے رویہ سے جو تمہارے لیے مناسب نہیں بےخبر بن جاؤ(یعنی اگر حکمران بننے سے پہلے تمہارا کسی سے کوئی جھگڑا یا دشمنی تھی تو اسے بھول جاؤ اور ختم کر دو)۔ اور چغل خور کی جھٹ سے ہاں میں ہاں نہ ملاؤ۔ کیونکہ وہ فریب کار ہوتا ہے، اگرچہ خیر خواہوں کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اپنے مشورہ میں کسی بخیل کو شریک نہ کرنا کہ وہ تمہیں دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنے سے روکے گا اور فقر و افلاس کا خطرہ دلائے گا اور نہ کسی بُزدل سے مہمات میں مشورہ لینا کہ وہ تمہاری ہمت پست کر دے گا اور نہ کسی لالچی سے مشورہ کرنا کہ وہ ظلم کی راہ سے مال بٹورنے کو تمہاری نظروں میں سج دے گا۔
"تمہارے لیے سب سے بد تر وزیر وہ ہو گا، جو تم سے پہلے بد کرداروں کا وزیر اور گناہوں میں ان کا شریک رہ چکا ہے۔ اس قسم کے لوگوں کو تمہارے مخصوصین میں سے نہ ہونا چاہیئے ، کیونکہ وہ گنہگاروں کے معاون اور ظالموں کے ساتھی ہوتے ہیں۔ ان کی جگہ تمہیں ایسے لوگ مل سکتے ہیں جو تد بیر ورائے اور کار کردگی کے اعتبار سے ان کے مثل ہوں گے ، مگر ان کی طرح گناہوں کی گرانباریوں میں دبے ہوئے نہ ہوں جنھوں نے نہ کسی ظالم کی اس کے ظلم میں مدد کی ہو۔اور نہ کسی گناہگار کا اس کے گناہ میں ہاتھ بٹایا ہو(یعنی اپنے اس عہدے کو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرنے کی بجائے ظالموں کے شریک جرم رہے ہوں۔ اور لوگوں کے حقوق غضب کر کے ان پر ظلم کیا ہو) "
واپس کریں