دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عوامی مقبولیت کا زعم۔محمد عرفان صدیقی
No image
آج کل کے سیاستدانوں کا اپنی عوامی مقبولیت پر گھمنڈ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں کئی ایسی ہستیاں گزری ہیں جن کی محبت آج تک عوام کے دلوں میں موجود ہے لیکن ان لیڈروں کی مقبولیت انہیں دردناک انجام سے نہ بچا سکی ۔ آج اگرہم عوام کے دلوں میں زندہ رہنے والے ذوالفقار علی بھٹو کی بات کریں تو عوام میں مقبول ترین ہونے کے باوجود ان کے ساتھ پیش آنے والے حالات و واقعات اور پھر ان کو ملنے والی پھانسی کی سزا صرف عوامی مقبولیت پرانحصارکرکے ریاست کو چیلنج کرنے والے سیاستدانوں کی آنکھیں کھولنے کے لئےکافی ہے۔ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد جنرل ضیاالحق نے حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی اور ایک دہائی تک ملک پر حکومت کرنے کے بعد انہیں بھی اپنی عوامی مقبولیت پر بہت زیادہ بھروسہ ہوگیا لیکن ان کی بھی ایک متنازعہ حادثاتی موت کے بعد ان کی مقبولیت بھی ان کے ساتھ منوں مٹی تلے دفن ہوگئی اور آگے بڑھیں تو پرویز مشرف بھی ملک کے اقتدار پر قابض ہوئے اور انھیں بھی چند برسوں تک اقتدار میں رہنے کے بعد اپنی عوامی مقبولیت پر بہت زیادہ فخر محسوس ہونے لگا لیکن پھر اس عوام نے ہی پہلے ان کی وردی اتروائی اور پھر انھیں اقتدار سے باہر کیا اور اب وہ اپنا آخری وقت بھی ملک میں گزارنے سے قاصر ہیں ،کچھ اور آگے بڑھیں تو ملک کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے عوامی لیڈر میاں نواز شریف، جن کو عوام نے دو تہائی اکثریت کے ساتھ ملک کا وزیر اعظم بنایا، بھی اپنی مقبولیت پر بہت زیادہ اعتماد کرنے لگے تھے ، لیکن پھرانھیں صرف اقامہ رکھنے اور اپنے بیٹے سے ایک تخیلاتی تنخواہ نہ لینےپر وزارت عظمیٰ کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا تو اس وقت نواز شریف اپنی عوامی مقبولیت کے عروج پر تھے ، ان کے جلسوں میں تِل دھرنے کی جگہ نہیں ہوا کرتی تھی ، عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد اسلام آباد سے لاہور تک ان کا سفر جس عوامی سیلاب کے ساتھ ہوا ،وہ آج بھی تاریخ کا حصہ ہے لیکن عوام کا یہ سیلاب انھیں دوبارہ اقتدار نہیں دلا سکا اور پھر وہ سینکڑوں عدالتی پیشیاں بھگتنے کے بعد قید بھی ہوئے اور ایک مشکل عمل کے بعد صحت کی خرابی کے سبب لندن پہنچے اور آج تک وطن واپس نہیں آسکے۔ اسی عوامی مقبولیت کی ایک کہانی بانیٔ متحدہ کی بھی ہے جن کے ایک اشارے پر اڑھائی کروڑ آبادی کا شہر کراچی بند ہوجایا کرتا تھا ، ایک اشارے پر لاکھوں افراد سڑکوں پر آجایا کرتے تھے لیکن پھر انہیں لندن فرار ہونا پڑا اور آج ان کا نام لینا بھی جرم بن چکا ہے۔

ملک میں موجود عوامی مقبولیت کی ان عبرتناک مثالوں کے باوجود آج کل سابق وزیر اعظم عمران خان بھی اپنی عوامی مقبولیت کی بناپر ریاست سےلڑتے نظر آرہے ہیں ،بعض دفعہ ان کا لہجہ اور انداز ریاست کو بلیک میل کرنے کے زمرے میں بھی آتا ہے ،انہیں بھی اپنی عوامی مقبولیت کا بڑا زعم ہے اور اسی زعم پر وہ ریاست سے اپنے کئے گئے تمام جرائم سے استثنیٰ حاصل کرنا چاہتے ہیں ، وہ عدلیہ اور ریاستی اداروں کو دھمکاتے رہے ہیں ،وہ خودکو بے قصورسمجھتے ہیں ، وہ ریاست کو ملنے والے تحائف بیچ کر بھی معصومیت کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں ، ریاستی اداروں پر دبائو ڈال کر دوبارہ اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں ، وہ ناراض ہیں کہ انہیں ان کے منصوبے کے مطابق دوہزار اٹھائیس تک اقتدار میں کیوں نہیں رہنے دیا گیا ؟ دراصل ماضی میں ان کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ چند ہزار افراد کو سڑکوں پر لاکر ریاستی اداروں کو ڈرانے کی بات کرتے نظر آئے اور شاید یہی ان کی اصل سوچ بھی ہے ، خان صاحب یاد رکھیں ،ریاست کا فیصلہ آجائے توعوامی مقبولیت آج تک کسی کو نہیں بچا پائی، کیا آپ کے سامنے ماضی کی مثالیں موجود نہیں ہیں؟ آج کل پورا ملک سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے پوری دنیا کو پاکستان میں سیلاب پر پریشانی ہے، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بھی پاکستان پہنچے ہیں، انھوں نے عالمی برادری کو پاکستان میں سیلاب سے ہونے والے تیس ارب ڈالر کے نقصان سے آگاہ کیا ہے، دنیا پاکستان کی مدد کو آرہی ہے لیکن چند سیاستدان سیاسی جلسوں کے ذریعے سیاست میں مصروف ہیں، یاد رکھیں سیلاب میں گھرے عوام آپ کو دیکھ رہے ہیں، آپ کی امداد کے منتظر ہیں،اس مشکل وقت میں سیاست سے گریز کریں ورنہ یہ مظلوم عوام آپ کو معاف نہیں کریں گے۔ امید ہے عوامی مقبولیت کے زعم کا شکار سبھی سیاستدان ماضی کے ایسے سیاستدانوں کے انجام سے سبق سیکھیں گے جنہوں نے صرف عوامی مقبولیت پر انحصار کیا اور غلط فیصلے کئے۔ان کے انجام سے ثابت ہوتا ہے کہ صرف عوامی مقبولیت کافی نہیں بلکہ اچھی کارکردگی ہی بقا کی ضامن ہوا کرتی ہے۔بشکریہ:جنگ
واپس کریں