دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
افغانستان سے تجارت
No image پاکستان اور افغانستان کےدرمیان ہونے والی صدیوں پرانی تجارت ہمیشہ سے ایک دوسرے کی غذائی ضروریات پوری کرنے میں ممد و معاون رہی ہے حتیٰ کہ دونوں کی کرنسی کا فرق بھی رکاوٹ نہیں بنا ، پیاز اور ٹماٹرکے حالیہ بحران میں شدت آنے سے پہلے ہی پاکستان نے 48 سے 72گھنٹوں میں انہیں افغانستان سے منگوا کر ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے منصوبے خاک میں ملا دیئے تاہم گذشتہ دنوں ایف بی آر نے افغانستان سے تازہ اور خشک پھل اور میوہ جات کی درآمد پرجو 49فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی تھی۔ اطلاعات کے مطابق ان اشیاءکی آمدمیں 90فیصد کمی آئی ہے اورملک میں ان کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ اس صورتحال میں ڈرائی فروٹ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو جائیں گے یا اسمگلنگ کی حوصلہ افزائی ہوگی جس کا ایف بی آر کے محاصل پر منفی اثرپڑے گا۔

اسمگلنگ نے ملک کے اندر پہلے ہی ایک متوازی معیشت کی شکل اختیار کر رکھی ہے جس سے قومی خزانے کواب تک اربوں روپے کا نقصان ہو چکاہے جبکہ افغانستان سے خوراک کا لین دین عمومی طور پر مقامی تجارت کے زمرے میں آتا ہے اسی طرح پاکستان سے ہر سال لاکھوں من گندم غیر قانونی طریقے سےافغانستان لے جائی جاتی اور اس کی برآمدی ڈیوٹی بدعنوانی کی نذر ہو جاتی ہے۔ پاکستان کی ایران اور افغانستان کے ساتھ آزادانہ تجارت کی بات چیت اور معاہدے کئی برس سے التوا کا شکار ہیں جبکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث خطے میں خوراک کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال میں اسے سرد خانوں سے نکال کر جلد از جلد دستاویزی شکل دی جانی چاہئے تاکہ ا سمگلنگ کی حوصلہ شکنی اور دونوں ملکوں کے ساتھ خوراک کے لین دین میں آسانی پیدا ہو سکے۔
بشکریہ:جنگ
واپس کریں