دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
فرانسیس برنیئر کا ہندوستان کے بارے میں سفر نامہ ۔تلخ حقائق
No image فرانسس برنیئر پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھا، یہ فرانس کا رہنے والا تھا. یہ 1658ء میں ہندوستان آیا اور 1670ء تک بارہ سال ہندوستان میں رہا۔یہ شاہجہاں کے دور کے آخری دن تھے، برنیئر طبی ماہر تھا چنانچہ یہ مختلف امراء سے ہوتا ہوا شاہی خاندان تک پہنچ گیا، اسے مغل دربار، شاہی خاندان، حرم سرا اور مغل شہزادوں اور شہزادیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، برنیئر نے شاہجہاں کو اپنی نظروں کے سامنے بے اختیار ہوتے اور اپنے صاحبزادے اورنگزیب عالمگیر کے ہاتھوں قید ہوتے دیکھا، اس نے اورنگ زیب عالمگیر کی اپنے تینوں بھائیوں داراشکوہ، سلطان شجاع اور مراد بخش سے جنگیں بھی دیکھیں اور بادشاہ کے ہاتھوں بھائیوں اور انکے خاندانوں کو قتل ہوتے بھی دیکھا۔اس نے دارالشکوہ کوگرفتار ہو کر آگرہ آتےاور بھائی کے سامنے پیش ہوتے بھی دیکھا اور اسے اورنگ زیب عالمگیر کے ساتھ لاہور، بھمبر اور کشمیر کی سیاحت کا موقع بھی ملا، فرانسیس برنیئر نے واپس جا کر ہندوستان کے بارے میں سفر نامہ تحریر کیا، یہ سفر نامہ 1671ء میں پیرس میں شائع ہوا، یہ بعد ازاں انگریزی زبان میں ترجمہ ہوا، برطانیہ میں چھپا اور اسکے بعد آ وٹ آف پرنٹ ہو گیا، مجھے چند دن قبل فرانسیس برنیئر کا یہ سفر نامہ پڑھنے کا موقع ملا، میں یہ کتاب پڑھ کر ورطہ حیرت میں چلا گیا کیونکہ فرانسیس برنیئر نے 1660ء میں جو ہندوستان (موجودہ پاکستان) دیکھا تھا وہ آجتک اسی اسپرٹ اور اسی کلچر کے ساتھ قائم ہے، ہم نے ساڑھے تین سو برسوں میں کچھ نہیں سیکھا۔فرانسس برنیئر نے ہندوستان کے بارے میں جگہ جگہ حیرت کا اظہار کیا، اسکا کہنا تھا، ہندوستان میں درمیانہ طبقہ (مڈل کلاس) سرے سے موجود نہیں، ملک میں امراء ہیں یا پھر انتہائی غریب لوگ، امراء محلوں میں رہتے ہیں، انکے گھروں میں باغ بھی ہیں، فوارے بھی، سواریاں بھی اور درجن درجن نوکر چاکر بھی جبکہ غریب جھونپڑیوں میں رہتے ہیں اور انکے پاس ایک وقت کا کھانا تک نہیں ہوتا،
وہ کہتا ہے، ہندوستان میں خوشامد کا دور دورہ ہے، بادشاہ سلامت، وزراء، گورنرز اور سرکاری اہلکار دو دو گھنٹے خوشامد کراتے ہیں، دربار میں روزانہ سلام کا سلسلہ چلتا ہے اور گھنٹوں جاری رہتا ہے۔لوگوں کو خوشامد کی اسقدر عادت پڑ چکی ہے کہ یہ میرے پاس علاج کے لیے آتے ہیں تو مجھے سقراط دوراں، بقراط اور ارسطو زمان اور آج کا بو علی سینا قرار دیتے ہیں اور اسکے بعد نبض کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہیں، بادشاہ سلامت دربار میں جب بھی منہ کھولتے ہیں تو درباری کرامت کرامت کا ورد شروع کر دیتے ہیں، لوگ جیبوں میں عرضیاں لے کر گھومتے ہیں اور انھیں جہاں کوئی صاحب حیثیت شخص دکھائی دیتا ہے یہ اپنی عرضی اسکے سامنے رکھ دیتے ہیں
اور وہ جبتک اس عرضی پر حکم جاری نہیں کرتا سائل وہاں سے ٹلنے کا نام نہیں لیتا.بازار بے ترتیب اور گندے ہیں آپکو ایک دکان سے پشمینہ، کمخواب، ریشم اور زری کا کپڑا ملے گا اور ساتھ کی دکان پر تیل، گھی، آٹا اور شکر بک رہی ہو گی. آپکو کتابوں اور جوتوں کی دکانیں بھی ساتھ ساتھ ملیں گی، ہر دکان کا اپنا نرخ ہوتا ہے اور بھاؤ تاؤ کے دوران اکثر اوقات گاہک اور دکاندار ایک دوسرے سے الجھ پڑتے ہیں، شہروں میں حلوائیوں کی دکانوں کی بہتات ہے مگر آپکو دکانوں پر گندگی، مکھیاں، مچھر، بلیاں اور کتے دکھائی دیتے ہیں، آپکو ہندوستان بھر میں اچھا گوشت نہیں ملتا، قصائی بیمار اور قریب المرگ جانور ذبح کر دیتے ہیں۔ پھل بہت مہنگے ہیں، ہندوستان میں خربوزہ بہت پیدا ہوتا ہے لیکن دس خربوزوں میں سے ایک میٹھا نکلتا ہے. سردہ بہت مہنگا ہے، میں پونے چار روپے کا سردہ خریدتا ہوں، ملک میں شراب پر پابندی ہے لیکن چھپ کر سب پیتے ہیں، شراب شیراز سے اسمگل ہو کر آتی ہے اور شہروں میں عام ملتی ہے تاہم حکومت نے عیسائیوں کو شراب پینے کی اجازت دے رکھی ہے مگر یہ اکثر اوقات اپنی شراب مسلمانوں کو بیچ دیتے ہیں،
ملک بھر میں جوتشیوں کی بھرمار ہے. یہ دریاں بچھا کر راستوں میں بیٹھ جاتے ہیں اور لوگ انکے گرد گھیرا ڈال لیتے ہیں، ملک میں پینے کا صاف پانی نہیں ملتا چنانچہ امراء اونٹ پر پانی لاد کر سفر کے لیے نکلتے ہیں، ہندوستان کی مٹی ذرخیز ہے لیکن زراعت کے طریقے قدیم اور فرسودہ ہیں چنانچہ کسان پوری پیداوار حاصل نہیں کر پاتے‘ ہندوستان کی زیادہ تر زمینیں بنجر پڑی ہیں، لوگ نہروں اور نالیوں کی مرمت نہیں کرتے‘ چھوٹے کسان یہ سمجھتے ہیں اس سے جاگیرداروں کو فائدہ ہو گا اور جاگیردار سوچتے ہیں بھل صفائی پر پیسے ہمارے لگیں گے مگر فائدہ چھوٹے کسان اٹھائیں گے لہٰذا یوں پانی ضایع ہو جاتا ہے‘ لاہور کے مضافات میں ہر سال سیلاب آتا ہے
اور سیکڑوں لوگوں کی ہزاروں املاک بہا لے جاتا ہے لیکن لوگ سیلابوں کی روک تھام کا کوئی بندوبست نہیں کرتے چنانچہ اگلے سال دوبارہ تباہی دیکھتے ہیں۔فرانسیس برنیئر نے ہندوستان کے لوگوں کے بارے میں لکھا
یہ کاریگر ہیں لیکن کاریگری کو صنعت کا درجہ نہیں دے پاتے لہٰذا فن کار ہونے کے باوجود بھوکے مرتے ہیں، یہ فنکاری کو کارخانے کی شکل دے لیں تو خوشحال ہو جائیں اور دوسرے لوگوں کی مالی ضروریات بھی پوری ہو جائیں، ہندوستان کے لوگ روپے کو کاروبار میں نہیں لگاتے، یہ رقم چھپا کر رکھتے ہیں، عوام زیورات کے خبط میں مبتلا ہیں، لوگ بھوکے مر جائیں گے لیکن اپنی عورتوں کو زیورات ضرور پہنائیں گے، ملک کا نصاب تعلیم انتہائی ناقص ہے،یہ بچوں کو صرف زبان سکھاتا ہےانکی اہلیت میں اضافہ نہیں کرتا، خود اورنگزیب نے میرے سامنے اعتراف کیا’’میں نے اپنے بچپن کا زیادہ تر وقت عربی زبان سیکھنے میں ضائع کر دیا‘‘ یہ لوگ فاقوں کو بیماریوں کا علاج سمجھتے ہیں چنانچہ بخار میں فاقے شروع کر دیتے ہیں۔ملک میں رشوت عام ہے، آپکو دستاویزات پر سرکاری مہر لگوانے کے لیے حکام کو رشوت دینا پڑتی ہے، صوبے داروں کے پاس وسیع اختیارات ہیں،
یہ بیک وقت صوبے دار بھی ہوتے ہیں، خزانچی بھی، وکیل بھی، جج بھی، پارلیمنٹ بھی اور جیلر بھی. سرکاری اہلکار دونوں ہاتھوں سے دولت لٹاتے ہیں، بادشاہ نے اپنے لیے 3 کروڑ 184 روپے کا (1660ء میں) تخت بنوایا. سرکاری عہدیدار پروٹوکول کے ساتھ گھروں سے نکلتے ہیں، یہ ہاتھیوں پر سوار ہو کر باہر آتے ہیں، انکے آگے سپاہی چلتے ہیں، ان سے آگے ماشکی راستے میں چھڑکاؤ کرتے ہیں، ملازموں کا پورا دستہ مور جھل اٹھا کر رئیس اعظم کو ہوا دیتا ہے اور ایک دو ملازم اگل دان اٹھا کر صاحب کے ساتھ چلتے ہیں.یہ لوگ گھر بہت فضول بناتے ہیں۔ انکے گھر گرمیوں میں گرمی اور حبس سے دوزخ بن جاتے ہیں اور سردیوں میں سردی سے برف کے غار، بادشاہ اور امراء سیر کے لیے نکلتے ہیں تو چھ چھ ہزار مزدور انکا سامان اٹھاتے ہیں، ہندوستان کی اشرافیہ طوائفوں کی بہت دلدادہ ہے،ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں طوائفوں کے کوٹھے ہیں اور امراء اپنی دولت کا بڑا حصہ ان پر نچھاور کر دیتے ہیں، طوائفیں شاہی خاندان کی تقریبات میں بھی بلوائی جاتی ہیں اور دربار سے وابستہ تمام لوگ انکا رقص دیکھتے ہیں، وزراء صبح اور شام دو مرتبہ بادشاہ کے سامنے حاضر ہوتے ہیں،
بادشاہ کے حضور حاضری نہ دینے والے وزراء عہدے سے فارغ کر دیئے جاتے ہیں.ہندوستان میں گرد، غبار، گندگی، بو اور بے ترتیبی انتہا کو چھو رہی ہےاور جرائم عام ہیں،
مجرم اول تو پکڑے نہیں جاتے اور اگر پکڑ لیے جائیں تو یہ سفارش یا رشوت کے ذریعے چھوٹ جاتے ہیں۔
یہ فرانسس برنیئر کے سفرنامے کے چند حقائق تھے، آپ انھیں دیکھئے اور آجکے پاکستان پر نظر دوڑائیے ہم نے ساڑھے تین سو سال میں کچھ نہیں سیکھا
واپس کریں