لگتا ہے کہ بات اب بڑھتی جارہی ہے اور غیر متعلقہ باتیں کرنے والے ساری حدیں پار کرنے لگے ہیں۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ ان کی حدود کیا ہیں اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں یعنی جو باتیں کر رہے ہیں ان کا ملک اور افواج پاکستان کو نقصان ہوسکتا ہے۔ وہ پاک فوج کی اعلیٰ قیادت کے بارے میں غیر سنجیدہ الفاظ استعمال کرتے رہے۔
پھر افواج پاکستان میں بغاوت کرانے کی مذموم کوشش کی گئی اور اب تو حد ہی کر دی گئی، کبھی فوج قیادت سے حمایت حاصل کرنے کی درخواستیں اور کبھی ان ہی کے خلاف ایسی گفتگو جو آج تک کسی نے نہیں کی ۔ یہ کون سی جمہوریت ہے؟ یہ کون سی سیاست ہے اور یہ کون سا طریقہ ہے؟
اب تو حد ہی کر دی گئی۔ گزشتہ روز فیصل آباد میں ایک جلسہ سے خطاب میں عمران خان نے کہا کہ زرداری اور نواز شریف نومبر میں اپنا آرمی چیف لانا چاہتے ہیں۔ یہ اپنی مرضی کا ایسا جنرل لانا چاہتے ہیں جو ان کے لئے بہتر ہو کیونکہ یہ ڈرتے ہیں کہ اگر محبِ وطن جنرل کو آرمی چیف بنایا گیا تو وہ ان کی چوری کا پوچھے گا۔ یہ گفتگو انتہائی نازیبا اور پاک فوج میں تفریق پیدا کرنے کی کوشش ہے۔
اس بیان کا صاف مطلب تو یہی ہے کہ پاک فوج میں خدانخواستہ ملک دشمن جنرل بھی ہیں اور بقول عمران خان چونکہ ان کا ہر سیاسی مخالف چور، لٹیرا اور ڈاکو ہے، اس لئے یہ تمام سیاسی مخالفین ان کی نظر میں ملک کے دشمن ہیں اور اس وقت وہی لوگ حکمران ہیں تو بقول عمران خان کے آرمی چیف کا تقرر چوں کہ نومبر میں یہی لوگ کریں گے تو وہ اپنے ہی جیسے آرمی چیف کا تقرر کریں گے۔
عمران خان کی نظر میں محبِ وطن صرف وہی ہیں جس کو وہ خود تعینات کریں گے۔کیا عمران خان کو یہ حقیقت معلوم نہیں کہ افواجِ پاکستان میں سپاہی سے لے کر ہر افسر اور ہر جنرل مصدقہ و مستند محبِ وطن ہے۔اعلیٰ عسکری قیادت اگر غیر جانبدار ہے اور اس ادارے میں شامل کسی بھی افسر کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں تو کیا یہ غلط ہے؟
تمام سیاستدان ہمیشہ یہ کہتے رہے ہیں کہ فوج کو غیر جانبدار رہنا چاہئے۔ جب وہ غیرجانبدار ہیں تو اس میں عمران خان کا کیا نقصان ہے؟ وہ تو ہر وقت یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پوری قوم ان کے ساتھ ہے اور وہ عوام کا ایک سمندر کسی بھی وقت سڑکوں پر لاسکتے ہیں۔ وہ اسلام آباد میں حکومت کا گھیراؤبھی کرسکتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ سب صرف بڑھکیں ہیں کیونکہ اس میں حقیقت ہوتی تو وہ صرف جلسہ جلسہ کھیلتے فوج کی حمایت حاصل کرنے کی ناکام کوشش کیوں کرتے ،اور اب اس میں ناکامی کو دیکھتے ہوئے وہ پھر انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور نہایت ہی متنازعہ گفتگو کرتے ہیں، اب یہ افواہ پھیلائی جارہی ہے کہ عمران خان کے مقتدرہ اداروں سے رابطے ہوئے ہیں اور معاملات ان کے حق میں ہیں ۔
باوثوق ذرائع کے مطابق یہ محض افواہیں ہیں جن کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ نہ ایسے رابطے ہوئے ہیں اور نہ ہورہے ہیں۔ ادارے اپنا کام کر رہے ہیں جو ان کی آئینی ذمہ داریاں ہیں۔ اس کے علاوہ افواج پاکستان کی پوری توجہ ملکی دفاع کے ساتھ ساتھ اب سیلاب سے متاثرہ پاکستانی بہن بھائیوں کی مدد کرنے پر مرکوزہے۔ نہ ان کا سیاست سے اور نہ ہی سیاسی معاملات سے کوئی تعلق ہے یا سیاسی رہنمائوں سے کوئی رابطہ ہے اور نہ ہی اس کی ان کو کوئی ضرورت ہے۔
محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان غالباً کسی بڑی الجھن کا شکار ہیں۔ عدالتوں میں ان کے خلاف نہایت مضبوط کیس چل رہے ہیں اور ذرائع کے مطابق کچھ نئے کیس تیار ہورہے ہیں۔ عمران خان کو یقین ہے کہ نااہلی کی تلوار ان کے سر پہ لٹک رہی ہے ۔ بعض سیاسی پابندیاں بھی لگ سکتی ہیں بلکہ سزا کا بھی امکان ہے۔ اس لئے یا تو وہ بہت زیادہ جذباتی ہوکر اپنے بیانات اور گفتگو میں اس سے بےخبر ہوکر حد پارکر جاتے ہیں کہ ایسے بیانات اور تقاریر سے ملک اوراہم ترین اداروں کے علاوہ خود ان کو اور ان کی جماعت کو کیا نقصانات ہوسکتاہے۔
ان کو یہ احساس بھی نہیں کہ وہ اداروں کو کسی طرح بھی کوئی نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ ان میں کوئی تفریق پیدا کرسکتے ہیں۔ البتہ ان کی غیر ذمہ دارانہ اور متنازعہ گفتگو اور تقاریر سے ملک اور خود ان کیلئے مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ ان کو یہ بھی احساس نہیں کہ اس طرح نہ ان کے خلاف کیس ختم ہوسکتے ہیں نہ ہی وہ برسراقتدار آسکتے ہیں بلکہ وہ اپنی منزل سے مزید دور ہوتے جارہے ہیں۔
ذمہ دار حلقوں کی اس بات پر بھی نظر ہے کہ بعض خود ساختہ اور نام نہاد و جانبدار دانشور سرشام مختلف نجی ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر اپنی خواہشات کا اظہار کرتے ہیں جن کو تجزیے کا نام دیا جاتا ہے۔ ان کے اپنے مفادات ہوں گے لیکن ان کو یہ خیال نہیں ہے کہ وہ کس کی اور کیا ترجمانی کررہے ہیں۔
ان حلقوں کے مطابق کیا پاکستان کی معیشت کی بہتری کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے، معزز عدلیہ اورملک کے اہم ترین اداروں کو بغاوت پر اکسانے کی مذموم کوششیں، اداروں کی اعلیٰ قیادت میں تفریق پیدا کرنے اور اب حاضر سروس جرنیلوں میں محب وطن اور غیر محب وطن جیسی مذموم و مکروہ اور بدنیتی پر مبنی باتیں کرنے والوں کی ترجمانی و حمایت کرنی چاہئے؟ اب ایسی کوششیں اور باتیں کرنے والوں کو ہوش کےناخن لینے چاہئیں اور ملک میں انتشار، اداروں اور عسکری قیادت کے بارے میں غیر ذمہ دارانہ گفتگو سے گریز ان کیلئے بہتر ہوگا۔ اسکے بجائے سیلاب زدگان کی مدد اہم اور ضروری ہے۔
بشکریہ:جنگ
واپس کریں