دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
چار وزرائے اعظم چار نا انصافیوں
No image میاں انوارالحق رامے۔نصرت بھٹو،بینظیر بھٹو اپنی حیات مستعار میں ہمیشہ شکوہ کناں رہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے انصافیوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا،ان نا انصافیوں کے ڈانڈے ملکی اسٹیبلشمنٹ دے لے کر بین اقوامی اسٹیبلشمنٹ تک دراز ہیں،بہت سی ان کہی داستانیں بھٹو کی عدالتی شہادت دے وابستہ ہیں،دنیا کی عدالتی تاریخ کا یہ انوکھا واقع تھا کہ دفعہ109 کے تحت کسی کو تختہ دار پر لٹکا دیا جائے۔ ایسا گرد جس نے قومی غیرت کے پاسداری کرتے ہوئے اپنی خداداد صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے 90 ہزار قیدیوں کو جس مسلح افواج کے لوگ بھی شامل تھے بھارت کی قید سے بلا شرائط نجات دلوا ئی تھی اور پاکستان 5کلومیٹر رقبے کو جو بھارت کے شہر تسلط تھا واگزار کروایا تھا۔پاکستان کی بقاء اور سالمیت کے لئے ڈاکٹر قدیر مرحوم کو بلوا کر ایٹمی ریکٹر کس آغاز کیا تھا ۔ بھٹو کہا کرتا تھا کہ ہم گھاس کھا لیں گے لیکن اپنی غیرت اور آزادی کا سودا نہیں کریں گے۔ذوالفقار بھٹو نے آئین پاکستان کی تشکیل کے لئے سب قومی جماعتوں 1973ء کے دستور پر متفق کر لیا تھا۔بھٹو کے نامہ اعمال میں یہ بات بھی سنہری حروف سے لکھی جائے گی اس نے تمام تر بین الاقوامی اور داخلی رکاوٹوں کے باوجود 1973 کے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے شرح و بسط کے تھا مرزائیوں لوئر مسلم اقلیت قرار دے دیا تھا۔بھٹو ایک وڈیرا تعلیم یافتہ سیاست دان تھا اقتدار کے نشے میں اپنے مخالفین کے خلاف ایسے ظالمانہ اقدامات اٹھا لیتے تھے جووہ واقعی قابل گرفت تھے لیکن اس کو ناحق سزائے موت دینے کا عمل کسی طور پربھی انصاف پر مبنی نہیں تھا۔بھٹو کے پرستار آج تک دست قاتل تلاش کر رہے بظاہر تو تارہ مسیح بھٹو کا قاتل تھا مگر باطنی طور بین الاقوامی اور قومی سطح پر بہت سے ہاتھ ملوث تھے،سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھٹو کو سزائے موت دے کر بین اقوامی سطح پر اپنے وقار کو گہنا لیا تھا۔بھٹو مرحوم کے ورثاء اور مقلدین آج تک اس قومی سانحہ کو یاد کرکے تڑپتے اور راہ زاریاں کرتے ہیں۔

ضیاء الحق کی سرپرستی اور نگرانی میں نواز شریف کی شخصیت کو پنجاب کی سیاست میں اہم رول ادا کرنے کے لئے منتخب کیا گیا،قومی اتحاد کی بھٹو کے خلاف ساری جدوجہد اور قربانیوں کا ثمر کا حقدار نواز شریف قرار دیا گیا۔نواز شریف نے 1985 ء بطور امیدوار غیر جماعتی انتخاب قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں جیت لی تھیں۔گورنر غلام جیلانی کی نظر کرم نے انتخابات سے پہلے نواز شریف کو بطور وزیر پنجاب کیبنٹ کا حصہ بنا لیا تھا۔فیصل آباد سے زاہد سرفراز سابق وفاقی وزیر نواز شریف سے اپنی پہلی ملاقات کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مجھے گورنر جیلانی نے پنجاب کے معاملات پر مشاورت کے لئے بلوایا تھا۔گفتگو کے دوران ایک خوبصورت نوجوان چائے کے برتن اٹھائے ہماری طرف سرو کر نے کے لئے آ رہا ہے گورنر جیلانی نے نوازشریف کاتعارف کرواتے ہوئے کہ یہ نوجوان میاں شریف کا بیٹا ہے اس کو وزیر بنا رہے ہیں،بعد میں نواز شریف نے ذاتی جدوجہد اور اینٹی بھٹو عناصر کو جمع کرکے ایک قومی لیڈر کا کردار بخوبی نبھایا تھا۔

ان میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ مجھے اور مریم نوازکو انصاف نہیں ملا ہے اور میرا اور مریم نواز کا سیاسی قتل کر دیا گیا ہے۔ اپنے ساتھ بے انصافی کے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے ان کے پاس جسٹس شوکت صدیقی اور حج ارشد ملک کی گواہیاں موجود ہیں ۔حالات کے ناروا جبر کا شکار لاچار نواز شریف جو تین بار ملک کا وزیر اعظم رہ چکا ہے اس شخص کامطالبہ آئینی اورقانونی ہے کہ مجھے فی الفور انصاف فراہم کیا جائے،اس کا سینہ رازوں کا خزینہ ہے اگر وہ اپنی سرشت کے خلاف قومی رازوں کی پردہ کشائی کردے تو پاکستان میں زلزلے تھمنے کا نام نہیں لیں گے۔ لیکن وہ قومی مفاد کے پیش نظر کبھی ایسا نہیں کرے گا۔ بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہنے والے لوگ وقت کی پکار پر موت کو گلے لگا لیتے ہیں لیکن قومی راز افشا نہیں کرتے ہیں،12جولائی کو نواز شریف اور مریم نواز نے بستر مرگ پر لیٹی کلثوم نواز سے آخری ملاقات کرتے ہوئے پاکستان کی راہ لی تو انہیں علم تھا کہ انہیں جج بشیر کی طرف سے دی گئی سزا کو بھگتا پڑے گا،واپسی پر سرکاری عہدے داروں نے جو ناروا سلوک نواز شریف کے ساتھ وہ انتہائی ظالمانہ اور سفاکانہ تھا۔

عدلیہ پر لازم ہے کہ جس برق رفتار سے انہوں نے مقدمات کا فیصلہ کرتے ہوئے سزائوں سے نواز شریف کو نوازا ہے اس سے زیادہ رفتار سے اپیلوں کی سماعت کی جائے یہ معاملہ کسی فرد کی بے جا رعیت کا معاملہ نہیں ہے بلکہ تار تار قبائے انصاف کی بخیہ گری کا ہے۔ نواز شریف سے تمام تر اختلافات کے باوجود نواز شریف کو انصاف ملنا چاہیے،نواز شریف کے بیانیہ کو شہباز شریف نے دریا برد کر دیا ہے اصل بیانیہ تو نواز شریف ہی کا تھا۔ جس طرح نواز شریف کی مشکیں کسی گئی ہیں وہی ہنر اب عمران خان پر آزمایا جا رہا ہے،پاکستان مسلم لیگ نون نے شتابی میں اپنے زیر سماعت مقدمات سے خوفزدہ ہو کر اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد سے تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کرکے نواز شریف کی اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کو دیس نکالا دے دیا ہے اور خود بھان متی کے ٹولے نے اقتدار کی زلفوں میں پناہ لے لی ہے۔عمران خان اپنی مقبولیت کی معراج پر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اپنی عوامی طاقت کا مظاہرہ کر رہا ہے،بالائی قوتوں شش جہت طرفین سے تمام لا شکر کے ساتھ اس پر حملہ ور ہو رہی ہیں،توشہ خانہ، ممنوعہ فنڈنگ کے مقدمات کا سہارا لے کر عمران خان کو نواز شریف کی طرح سیاست سے بے دخل کرنے پر در پے آزار ہیں۔
بشکریہ:روزنامہ اوصاف
واپس کریں