دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سیلاب کیوں؟ اہم سوالات اور جواب۔ تحریر: ڈاکٹر محمد عقیل
No image بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔سوال 1:حضرت، سیکڑوں لوگ سیلاب میں بہہ گئے، لاکھوں مکان گرگئے، ہزاروں مویشی فنا ہوگئے، کیا بچہ ، کیا بوڑھا، کیا عورت، کیا مرد، سب بے سرو سامانی میں کھلے آسمان کے نیچے آگئے۔ آخر خدانے یہ سب ہونے ہی کیوں دیا؟ وہ تو قادر مطلق ہے تو کیوں اس کی قدرت کاملہ نے یک جنبش قلم اس تباہی کو روک نہ دیا؟جواب: جان لو، وہی تمہارا خدا ہے جو ہر شے پر قادر ہے اور اسی خدا نے اپنا قانون نیچر میں کوڈ کردیا ہے۔ اسی خدا کا قانون اس نیچر میں جاری ہے۔ نیچر کا یہ قانون خدا کی آیتیں (نشانیاں ) ہیں۔ جو کوئی بھی اس قانون کو جان کر اور مان کر اس کے مطابق خود کو ڈھال لے گا، وہ امان میں آجائے گا خواہ اس کا تعلق کسی بھی رنگ، نسل ، مذہب اور علاقے سے ہو۔ تو نیچر کے قانون میں لکھا ہے کہ جب انسان اپنی لالچ میں زمین پر خطرناک گیسوں کا اخراج کرے گا تو نیچر اس پر ری ایکٹ کرے گی اور بارشیں زیادہ ہونگی۔ جب انسان حرص و طمع میں درختوں کو کاٹے گا تو سیلاب کی روک کو ختم کردے گا۔ قانون میں لکھا ہے کہ جب کوئی قوم بار بار کی یاددہانی کے باوجود پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیم نہیں بنائے گی تو ایسی ہی تباہ حالی کا شکار ہوگی۔ قانون میں لکھا ہے کہ پانی نیچے کی طرف بہتا ہے تو اگر اس کی راہ میں تجاوزات کی شکل میں رکاوٹ پیدا کی جائے گی تو یہ تباہ کن ہوگی۔ یہ تمہارے خدا ہی کا قانون ہے کہ جب پانی کی ویلاسٹی دوگنی ہوجائے تو اس کے پریشر میں 64 فی صد کا اضافہ ہوجاتا ہے۔یہ اسی خدا کا قانون ہے جس کو تم قادر مطلق کہتے ہو اور پھر قانون کو ماننے سے انکاری ہو۔

سوال 2: لیکن یہ کیا معاملہ ہے کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی؟زہریلی گیسیں ترقی یافتہ قومیں خارج کریں اور بھگتنے کے لیے ہمارے گھر تباہ ہوجائیں، درخت لینڈ مافیا کاٹے اور مویشی غریبوں کے بہہ جائیں، ڈیم حکمران نہ بنائیں اور اور تباہی عوام کا مقدر ہو۔ فیصلے امیروں کے محلات میں ہوں اور آشیانے تباہ حال غریبوں کے اجڑ جائیں؟
جواب: کرے کوئی اور بھرے کوئی بھی اسی نیچر کے قانون کی ایک شکل ہے ۔اجتماعی معاملات میں اکثر اوقات انسان کو وہ کچھ مل جاتا ہے جس کی اس نے محنت نہیں کی ہوتی ۔ اسی اصول کے تحت بعض اوقات اسے دوسروں کی اجتماعی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔
یہ سوال اس وقت کیوں نہیں پیدا ہوتا جب ایجادات تو مغربی اقوام کریں اور اس کا استعمال غریب قومیں بھی کریں؟ ملیریا پر تحقیق مغرب میں ہو اور اس کا فائدہ پاکستان میں ایک دیہاتی بھی اٹھائے؟موبائیل، ٹی وی، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، گوگل میپ تو مغرب بنائے اور اس سے استفادہ وہ بھی کریں جن کا اس میں کچھ حصہ نہیں۔ پس ، اگرتم دوسری قوموں کے اچھے اعمال سے مستفید ہوسکتے ہو تو ان کے برے اعمال کا نتیجہ بھی اسی قانون کے تحت بھگتنا ہوگا۔
رہی بات حکمرانوں کے غلط فیصلوں کی تو یہ تمہارے ہی ہاتھوں منتخب ہوئے لیڈر ہیں جنہیں تمہاری اکثریت نے ووٹ دے کر چنا۔ جن اداروں سے تم شکوہ کرتے ہو، اس میں تم ہی لوگ کام کرتے ہو، جن نااہلوں کو تم کوس رہے ہو وہ تم ہی میں سے ہیں کوئی آسمان سے نازل نہیں ہوئے۔

سوال 3: لیکن آخر یہ عذاب غریبوں ہی کے لیے کیوں ہے جو پہلے ہی دو وقت کی روٹی کے لیے تڑپ رہے ہیں؟ آخر کیوں ان وڈیروں ، سیاستدانوں، جرنیلوں ، صنعت کاروں اور امیروں کے مکان محفوظ رہتے ہیں؟ آخر کیوں ان کے بچے سڑکوں پر نہیں آتے؟ آخر کیوں ان کے کاروبار تباہ نہیں ہوتے؟ یہ کہاں کا انصاف ہے؟
جواب: کیا تم سمجھتے ہو کہ اس سیلاب کا نشانہ یہ غریب لوگ تھے؟نہیں۔ نیچر میں کو ڈ کردیا گیا ہے جو عمار ت پانی کا دباو نہیں جھیل پائے گی وہ گر جائے گی خواہ وہ پکی ہو یا کچی۔ اب اگر ایک غریب شخص کا مکان پکا ہے یا پانی کے راستے میں نہیں ہے تو بچ جائے گا اور ایک امیر شخص کا مکان ، فیکٹری یا کھیت اس راستے میں آیا تو تباہ ہوجائے گا۔ کتنے ہی امیروں کے ہوٹل تھے جو پکے تھے لیکن زمیں بوس ہوگئے۔
دوسری بات یہ ذہن سے نکال دو کہ غریب ہونے کا مطلب معصوم ہونا ہے اور امیر ہونے کا مطلب ایک گناہ گار۔ان غریبوں میں بھی ایسے لوگ ہیں جو مالی جرائم، ظلم و عدوان، جنسی تشدد ، کرپشن اور ناہلی جیسے کئی اخلاقی جرائم میں ملوث ہوتے ہیں۔ پھر بڑی تعداد میں یہ غریب لوگ اپنی غربت کے خود ذمہ دار ہیں۔قدرت سب کو یکساں مواقع فراہم کرتی ہے لیکن ان غریبوں کی سستی، کاہلی اور جان بوجھ کر پیدا کی گئی نااہلی نے انہیں اپنی حالت بدلنے سے روک رکھا ہے۔

سوال 4: لیکن خدا نے ان کو کیوں نہیں بچایا؟ وہ تو رحیم و مہربان ہے تو کیوں نہ اس کی رحمت نے ان بے آسرا لوگوں کی مدد کی؟
جواب: تم یہ کس طرح کہہ سکتے ہو کہ اس ناقص پلاننگ، ناجائز تجاوزات، خدا کے قوانین قدرت کی نافرمانی اور مجرمانہ غفلت کے باوجود لوگوں پر رحم نہیں کیا گیا؟ ابھی تک سیلاب میں مرنے والوں کی تعداد ہزار تک پہنچی ہے۔ ہوسکتا ہے یہ تعدادکئی ہزاروں میں ہوتی ، لیکن خدا کی رحمت نے اسے ہزار تک محدود کردیا ۔ ہوسکتا ہے یہ بے آسرا لوگ جو زندہ بچ گئے ہیں ، وہ سیلاب سے نہیں تو بھوک سے مرجاتے لیکن اللہ نے صاحب ثروت لوگوں کے دلوں میں رحم ڈال کر ان تک امداد کا بندوبست کردیا۔ہوسکتا ہے کہ یہ بارش اس سے کئی گنا دگنی تھی لیکن اللہ کے نظام نے مداخلت کرکے اس کی شدت کو محدود کردیا ہو۔
تم لوگ بہت ناشکرے ہو۔ کرونا کے دوران جب دنیا بھر میں تباہی پھیلی ہوئی تھی اور ترقی یافتہ ممالک تک میں روزانہ ہزار ڈیڑھ ہزار کی شرح سے اموات ہورہی تھی، تب بھی اللہ نے تم پر خصوصی کرم کیا اور محض 30یا 40 ہزار تک اموات ہوسکیں۔ جبکہ پڑوسی ممالک میں یہ تعداد لاکھوں میں ہے۔

سوال 5: لیکن خدا تو قادر مطلق ہے، ہر قانون سے بالاتر ہے، وہ چاہتا تو اتنی تباہی بھی نہ ہوتی ؟
جواب: بے شک تمہار ا خدا قادر مطلق ہے اور نیچر کے قوانین سے بالاتر ہے۔ لیکن اس کے باوجود نیچر کے قوانین اسی کے بنائے ہوئے قانون ہیں جن کی اپنی حکمت ہے۔ خدا بالعموم اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ اس تباہی کے پیچھے ایک بڑی حکمت ہے اگر تم سمجھو ۔
سوال : آخر غریبوں کے ہزاروں مکانات گرجانے کے پیچھے کیا حکمت ہوسکتی ہے؟
جواب: تم ابھی تک اس غریبی کے دلفریب نعرے سے باہر نہیں نکلے۔ جان لو، اس تباہی میں ایک سبق ہے ، ایک وارننگ ہے اور ایک موقع۔ سبق وہی پرانا ہے جو 2010 میں دیا گیا لیکن تم نے اسے بھلادیا اور اس سے کوئی نصیحت حاصل نہ کی۔ وارننگ تمہارے اجتماعی اور انفرادی اخلاقی انحطاط کی ہے جس کا شکار امیرو غریب دونوں ہیں۔

سوال 6: وہ کون سے اخلاقی جرائم ہیں جن کی وجہ سے یہ آفتیں آتی ہیں؟ کیا یہ سب کچھ عریانی و فحاشی، سود ، بے پردگی اور نمازیں چھوڑنے کی بنا پر ہوتا ہے؟
جواب: ۔ عریانی ، فحاشی، سود اور عبادات سے روگردانی کا اپنا ایک محل ہے لیکن ان کا اس وقت زیر بحث سیلاب سے کوئی تعلق نہیں ۔ دیکھا جائے تو مغربی اقوام بظاہر ان تمام جرائم میں ملوث ہیں لیکن وہاں تو اس قسم کی تباہی نہیں آتی۔ ہر قدرتی آفت کے کچھ مادی اسباب ہوتے ہیں اور کچھ اخلاقی۔ وہ اخلاقی اسباب کسی نہ کسی طرح ان مادی اسباب کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں اور یوں نظام الٰہی کسی قوم پر آفت لانے یا ٹالنے کا فیصلہ کرتا ہے ۔

سوال7: وہ کون سے مادی و اخلاقی اسباب ہیں کہ پاکستان پر یہ آفت آئی ؟
جواب : حالیہ سیلاب کے مادی اسباب میں گلوبل وارمنگ، ڈیمز نہ بنانا، جنگلات کثرت سے کاٹ دینا، پانی کی نکاسی کا نظام نہ بنانا اور نکاسی کے نظام پر تجاوزات کھڑی کردینا شامل ہیں۔ انہی مادی اسباب کے ساتھ چند اخلاقی پہلو ہیں جو اس قوم نے یکسر نظر انداز کردیے۔ سب سے پہلے نااہلی۔ پاکستان گلوبل وارمنگ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے لیکن اس سے نبٹنے والے ادارے نے کیا پلاننگ کی؟ محکمہ جنگلات نے کیوں درخت کاٹنے سے نہیں روکا، ڈیمز بنانے والے اداروں نے کیا کیا؟تجاوزات قائم کس نے کرنے دیں؟ ڈیساسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے تنخواہ لینے کے علاوہ کیا کیا؟
اس کی ایک اور وجہ لالچ ہے ۔ لالچ سے مراد دولت، اشیاء ،شہرت یا طاقت حاصل کرنے کی شدید اور خود غرضانہ خواہش ہے ۔ جو لوگ کچھ کرسکتے تھے ان کی اکثریت کو بھی لالچ نے انہیں اندھا کردیا اور انہوں نے اپنے ذاتی فائدے کے عوض روک تھام نہ کی اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ان تمام اداروں میں جو لوگ بیٹھے ہیں وہ عوام ہیں یا ان کے نمائیندے۔ ان کی ناہلی عوام کی نااہلی ہے۔ یہ نااہلی اور لالچ ایک بہت بڑی اخلاقی کوتاہی اور جرم ہے جس کی یہ سزا ہے۔

سوال 8: پھر قوم کو کیا کرے ؟
جواب : قوم کو چاہیے کہ وہ اس ناہلی اور لالچ پر آواز اٹھائیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ قوم کی اکثریت خود اسی ناہلی کا شکار ہے اسی لیے وہ بزدلی کا شکار ہے اور اپنے حقوق کے لیے آواز نہیں اٹھاتی اور یوں مفاد پرست لوگ اس کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے رہتے ہیں۔ دوسری جانب جھوٹی انا اور تکبر نے پوری قوم کو ناقابل اصلاح بنادیا ہے۔ ہر دوسرا فرد اور ادارہ اپنی نااہلی کے باوجود خود کو عقل کل سمجھتا ہے اور اپنے اوپر ہونے والی مثبت تنقید کو بھی منفی انداز میں لے کر دوسروں کی غلطیاں ڈھونڈنے اور ان پر جوابی الزام تراشیاں شروع کردیتا ہے۔ نتیجتا بات وہیں پر رہ جاتی ہے جہاں ہوتی ہے۔
یوں تواخلاقی جرائم کی فہرست بہت طویل ہے جن میں جھوٹ، دھوکہ بازی، فریب، جنسی جرائم، خودغرضی وغیرہ شامل ہیں لیکن چار بڑے جرائم ہیں جو اس سیلاب سے براہ راست منسلک ہیں اور جن میں پاکستان کی 75 فی صد آبادی ملوث ہے۔ یہ چار جرائم ہیں نااہلی ، بزدلی، لالچ اور جھوٹی انا۔یہ چاروں جرائم مل کر ایک اسکوائر کاز بناتے ہیں اور یوں پاکستانی قوم ایک بڑے اخلاقی جرم میں گرفتار ہوجاتی ہے۔

سوال9: کیا یہ سیلاب عذاب ہے یا وارننگ؟
جواب: یہ صرف الفاظ کی ہیرا پھیری ہے۔ البتہ ہمارے ہاں عذاب سے متعلق یہ غلط تصور ہے کہ عذاب کسی بھی شخص پر صرف انہی گناہوں کی صورت میں آتا ہے جو اس نے خود کیے ہوتے ہیں۔ چنانچہ عذاب کہنے سے یوں لگتا ہے کہ سیلاب سے اجڑنے والے لوگوں کے گناہ اتنے زیادہ تھے کہ نظام الٰہی نے انہیں براہ راست سزا دی۔ بات یوں ہے کہ نظام الٰہی اجتماعی معاملات میں قوم کو ایک یونٹ کے طور پر لیتا ہے اور جب اس قوم پر ضرب پڑتی ہے تو اس کا وہی طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے جو عالم اسباب میں کمزور ہوتاہے۔ بہرحال ، یہ سیلاب پوری قوم کے لیے ایک وارننگ ہے کہ وہ مادی و اخلاقی اسباب تلاش کرکے آگے اس کی روک تھام کے لیے کام کریں ۔ اگر ایسا کرلیا تو اس تباہی میں جو کچھ بھی کھویا ہے اس سے کئی گنا دوبارہ مل جائے گا ور مستقبل میں اس قسم کی مزید آفتوں سے بھی بچ جاوگے۔

سوال 10: لیکن اس آفت کے موقع پر قوم نے کھل کر یک جہتی کا مظاہرہ کیا ہے اور دل کھول کر متاثرین کی مدد کی ہے؟
جواب: یہ واقعی ایک لائق تحسین بات ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے تمہاری قوم ایک جذباتی عدم تواز کی شکار قوم ہے۔ جب جذبات کا لاوا ابلتا ہے تو جان، مال سب حاضر کردیتی ہے۔ لیکن جب یہ جوش ٹھنڈا ہوجاتا ہے تو وہی ڈھاک کے تین پات۔ ضرورت اس بات کی ہے مریض کی صرف جان ہی نہ بچائی جائے بلکہ اس جان بچانے کے بعد آئیندہ مرض کی روک تھام کے لیے لانگ ٹر م اقدام کرنا بھی ضروری ہے ۔

سوال 11: یہ تو بڑ ے فلسفیانہ معاملات ہیں۔ سادہ الفاظ میں ایک عام انسان کو کیا کرنا چاہیے؟
جواب: جو اپنی ملازمت، کاروبار کے جو بھی فرائض ہیں انہیں روزہ اورنماز سے زیادہ فرض سمجھ کر ادا کرے۔ اگر کسی کام کی اہلیت نہیں تو اس کی اہلیت تعلیم اور ٹریننگ سے دور کرے ، ذاتی مفاد سے بالاتر ہوکر جس ادارے میں کام کرتا ہے اس کے مفاد کو عزیز تر رکھے ، بزدلی ، لالچ اور جھوٹی انا سے گریز کرے۔ لالچی اور طاقت ور طبقات کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہوجائے۔ لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرے اسے بھی آسانیاں مل جائیں گی۔

سوال 12: آپ نے نماز ، روزے اور دیگر عبادات کا ذکر نہیں کیا؟
جواب: عبادت کے دو پہلو ہیں ، ایک بندے کا خدا سے تعلق اور ایک بندے کا مخلوق سے تعلق۔ نیچر کے ری ایکشن کا اصل فوکس اس پر ہوتا ہے کہ بندے نے باقی بندوں سے کیا معاملات رکھے جبکہ بندے اور خدا کا تعلق پرائیوٹ ہے جو اس کے اور اس کے رب کے درمیان کا معاملہ ہے۔
واپس کریں