دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
خلیج پر برطانوی قبضہ ختم کرنے کے لیے کیے جانے والے خفیہ معاہدے
No image بی بی سی نیوز عربی اور فارسی کی ایک مشترکہ دستاویزی فلم میں مشرق وسطیٰ میں برطانیہ کی سلطنت کو ختم کرنے والے خفیہ معاہدوں کو ظاہر کیا گیا ہے۔فلم ’سیکرٹس اینڈ ڈیلز: ہاؤ برٹین لیفٹ دی گلف‘ میں اس بات کی تفصیلات شامل ہیں کہ اس نے ایران کو کس طرح متنازع جزیروں کے کنٹرول میں چھوڑا اور اس کے ساتھ ہی اس میں برطانوی منظم بغاوت کے عینی شاہدین کے بیانات بھی شامل ہیں۔سنہ 1967-1968 کا موسم سرما برطانوی معیشت کے لحاظ سے بحران کا وقت تھا۔ بہت سے عرب رہنما سمجھتے تھے کہ برطانیہ نے جون سنہ 1967 کی چھ روزہ جنگ میں اسرائیل کو اپنے عرب پڑوسیوں پر فتح دلانے میں خفیہ طور پر مدد کی تھی۔ اس جنگ کے دوران اسرائیل نے مشرقی یروشلم، غربِ اردن، غزہ، جزیرہ نما سینائی اور گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا تھا۔

جوابی کارروائی کے تحت تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی ریاستوں نے برطانوی کرنسی والی اپنی ملکیت کو فروخت کرنا شروع کر دیا۔نتیجتاً پاؤنڈ کریش ہو گیا۔ رقم کو بچانے کے لیے بے چین ہیرالڈ ولسن کی لیبر حکومت نے فیصلہ کیا کہ یہ مشرق وسطیٰ میں برطانیہ کے سامراجی دفاعی وعدوں کو ختم کرنے کا مناسب وقت ہے۔

برطانیہ نے خلیجی ممالک کو کبھی بھی سرکاری طور پر اپنی کالونی نہیں بنایا تھا، لیکن 18ویں صدی سے ہی اسے خطے میں ایک سرکردہ غیر ملکی قوت کے طور پر دیکھا جاتا رہا تھا۔
بحرین، قطر اور ٹروشیئل ریاستوں (ابوظہبی، دبئی اور ان کے چھوٹے پڑوسیوں) جیسی عرب امارات نے برطانیہ کے ساتھ تحفظ کے معاہدوں پر دستخط کیے تھے۔
اس کا مطلب یہ تھا کہ ان ممالک کی دفاعی اور خارجہ پالیسیوں پر برطانیہ کا کنٹرول ہوگا جبکہ مقامی رہنما زیادہ تر مقامی معاملات کی نگرانی کریں گے۔

سنہ 1965 میں سیاسی، سماجی اور تعلیمی لحاظ سے سب سے زیادہ ترقی پسند ریاستوں کے حکمران شیخوں میں شارجہ کے صقر بن سلطان القاسمی انگریزوں کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔
ان کا جرم عرب قوم پرست تحریک کے اہم ستون مصر کے صدر جمال عبدالناصر کے خیالات کی پیروی کرنا تھا۔
شیخ صقر کو برطانوی سرپرستی میں ہونے والی بغاوت کے تحت ہٹا دیا گیا اور ان کی جگہ ان کے چچا زاد بھائی نے لی۔سرکاری طور پر حکمران خاندان نے اتفاق کیا کہ انھیں جانا پڑے گا۔شیخ صقر کو ملاقات کے لیے دبئی بلایا گیا۔ برطانیہ کی مقامی فوج ٹروشیئل عمان سکاوٹس ان کا انتظار کر رہی تھی۔ یہ ان کے لیے ایک پھندا تھا اور پھر شیخ صقر کو جلاوطن کر دیا گیا۔

فلم میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح برطانیہ نے بغاوت کا انتظام کیا۔ سر ٹیرنس کلارک نے (جو بعد میں عراق میں برطانیہ کے سفیر بنے) پہلی بار بی بی سی کو بتایا کہ یہ سب کیسے انجام پذیر ہوا:
’ہمارے ٹروشيئل عمان سکاؤٹس کا ایک دستہ پہنچا۔ انھوں نے صقر کے محافظوں کو غیر مسلح کر دیا۔’جب میں نے دیکھا کہ وہ سکون سے بیٹھے ہیں تو میں نے ڈپٹی ایجنٹ سے کہا کہ 'پیغام پہنچا دیا گیا ہے'۔ یہ ایک اشارہ تھا۔’ڈپٹی ایجنٹ نے شیخ صقر کو بتایا کہ حکمران خاندان نے انھیں ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔’صدمے سے شیخ صقر اٹھ کھڑے ہوئے، انھوں نے اپنے آدمیوں کو غیر مسلح بیٹھے دیکھا، وہ کچھ نہیں کر سکتے تھے۔’انھیں فیصلہ کو تسلیم کرنا پڑا۔'’ہم ان جزیروں کو لے لیں گے‘
سنہ 1968 میں ایک بار جب برطانیہ نے اعلان کیا کہ وہ خلیج سے نکلنے کا ارادہ رکھتا ہے تو عرب رہنماؤں اور ایران کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی۔
جھگڑے کا مرکز بحرین اور آبنائے ہرمز کے قریب واقع تین چھوٹے لیکن عسکری لحاظ سے اہم جزیرے ابو موسیٰ، اور گریٹر اینڈ لیسر تنبز (طنب الكبرى و طنب الصغرى) تھے۔
ایک خفیہ نوٹ کے مطابق برطانیہ کے انخلا پر ایران کے شاہ کا موقف پختہ تھا۔ اس نوٹ میں شاہ اور ایک برطانوی وزیر کے درمیان ہونے والی ملاقات کا ذکر کیا گیا تھا۔ایک جزیرے کو چھوڑ کر جسے انھوں نے ’وہ جزیرہ‘ کہا شاہ نے خلیج سے متصل عرب حکمرانی والے تمام علاقوں کو آزادی دینے پر اتفاق کیا۔ ’وہ جزیرہ‘ بحرین تھا۔ایران تاریخی طور پر بحرین اور تین جزیروں کو اپنی سرزمین کا حصہ کہتا رہا ہے جسے ان کے مطابق برطانیہ نے ’چھین‘ لیا تھا۔اس کے بعد عرب حکمرانوں، برطانیہ اور شاہ کے درمیان پس پردہ سفارتکاری کا ایک سلسلہ چل پڑا۔
جیسا کہ تہران میں برطانیہ کے اس وقت کے سفیر نے بعد میں ایک آڈیو ریکارڈنگ میں جو اس سے پہلے کبھی نشر نہیں ہوئی بتایا تھا: ’لندن نے کہا، ٹھیک ہے، ہم اس کی کوشش کریں گے لیکن یہ بہت نازک آپریشن ہے کیونکہ ہمیں ایرانیوں پر بھروسہ نہیں ہے، ایرانی ہم پر اعتماد نہیں کرتے۔ اور بحرینی ہم میں سے کسی پر بھروسہ نہیں کرتے۔‘
عوام کے سامنے شاہ کا رویہ بدل گیا۔ وہ بحرین پر اپنے دعوے میں نرمی لائے، اور 1970 میں کیے گئے ایک سروے کی بنیاد پر، اور اس کے خود مختار ہونے کے فیصلے کی ذمہ داری اقوام متحدہ کے سپرد کر دی۔1971 کے موسم گرما تک آج کل کی عرب خلیجی ریاستوں کی شکل واضح ہونے لگی تھی۔ اگست میں بحرین اور قطر میں مکمل طور پر آزاد ہو گئے تھے، اور ابوظہبی، دبئی، شارجہ اور چار دیگر امارات کے لیے متحدہ عرب امارات کے نام سے ایک نئی فیڈریشن قائم کرنے کے منصوبے بنائے گئے تھے۔لیکن تین متنازع جزیرے باقی تھے۔ ان پر ایران کا دعویٰ تھا لیکن امارات کی حکومت تھی۔

ایرانی وزارت خارجہ کی طرف سے جون 1970 میں لکھے گئے ایک نئے دریافت شدہ خفیہ نوٹ کے مطابق شاہ نے برطانیہ کے وزیرِ خارجہ سر ایلک ڈگلس ہوم کو کہا: ’یہ جزیرے ایران کے ہیں اور انھیں ایران کو واپس کیا جانا چاہیے۔۔۔ چاہے کچھ بھی ہو، ہم ان جزیروں کو واپس لے کے رہیں گے۔‘عوامی سطح پر، برطانوی حکام کہتے تھے کہ تینوں جزیروں کا تعلق ٹروشیئل ریاستوں سے ہے۔ تاہم، بی بی سی کو ملنے والی خفیہ کیبلز سے پتہ چلتا ہے کہ سر ولیم لوس نے، جو ایک لمبے عرصے تک برطانوی نوآبادیاتی منتظم اور سفارت کار رہے، دسمبر 1971 میں برطانوی افواج کے انخلاء سے قبل شاہ سے خفیہ طور پر تین جزیروں میں سے دو کو ایران کے حوالے کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

حال ہی میں سامنے آنے والی خفیہ دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ 30 نومبر 1971 کو تین جزیروں پر ’ایران کے قبضے‘ کے خلاف متحدہ عرب امارات کے کئی مظاہروں کے باوجود، ابوظہبی کے شیخ زید اور دبئی کے شیخ رشید کو، جو بالترتیب متحدہ عرب امارات کے بانی صدر اور نائب صدر تھے، ایرانی بحری افواج کے داخل ہونے سے پہلے برطانیہ کے فیصلے سے آگاہ کر دیا گیا تھا۔دستاویزات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ شیخ زید اس فیصلے سے متفق تھے۔ جبکہ شارجہ کے امیر نے ابو موسیٰ جزیرے کی انتظامیہ میں اشتراک کے لیے ایران کے ساتھ ایک معاہدے پر اتفاق کیا تھا۔ یہ معاہدہ 1992 تک جاری رہا، اور پھر ایران نے جزیرے پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔

دسمبر 1971 تک خلیج میں برطانیہ کی موجودگی، جو کہ مشرق وسطیٰ میں اس کی سلطنت کا آخری نشان تھا، ختم ہو چکا تھا۔آج بھی متحدہ عرب امارات تین جزیروں پر ایران کی خودمختاری کے دعوے کو نہیں مانتا، اور یہ ایران اور عرب دنیا کے درمیان کشیدگی کا باعث بنا ہوا ہے۔
بشکریہ:بی بی سی
واپس کریں