دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سفارتی سائیفر کو کیسے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا گیا۔
No image جس وقت آئی ایم ایف کی ڈیل کو نقصان پہنچانے کیلئے پی ٹی آئی کے رہنمائوں کی بات چیت کی آڈیو لیک ہوئی ہے اس وقت یہ بات اب بھی ایک معمہ بنی ہوئی ہے کہ عمران خان نے سفارتی دستاویز کو اپنے سیاسی فوائد کیلئے استعمال کرنے کیلئے کیا منصوبہ بنایا کیونکہ اس حوالے سے معلومات صرف چند خاص افراد کو ہی حاصل ہے۔ جن افراد کے پاس یہ دستاویز موجود ہے وہی اب فیصلہ کریں گے کہ آیا اس حوالے سے معلومات کو عوام کے سامنے رکھا جانا چاہئے یا نہیں، یا پھر اسے کب عوام کے سامنے لانا چاہئے۔

دستاویز کے حوالے سے معلومات سے آگاہ ایک اہم سرکاری عہدیدار کا کہنا تھا کہ انہیں اس بات کا علم تھا کہ کیسے سفارتی دستاویز کو استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا گیا اور عدم اعتماد کے ووٹ سے قبل کس نے کسے کیا ہدایات دیں۔ اس صورتحال کا نتیجہ امریکا کے ساتھ تعلقات کی مزید خرابی کی صورت میں سامنے آیا جو پہلے ہی افغانستان سے امریکی انخلاء کے حوالے سے عمران خان کے بیانات سے ناراض تھا۔

سرکاری عہدیدار نے یہ نہیں بتایا کہ اس دستاویز میں کیا ہے جس وقت طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو اس وقت عمران خان نے کہا تھا کہ طالبان نے غلامی کی زنجیریں توڑ دیں۔

سرکاری ذریعے کا کہنا تھا کہ اس وقت امریکی حکام کہتے تھے کہ عمران خان نے غیر ذمہ دارانہ بیانات دے کر زخموں پر نمک چھڑکا ہے۔

پی ٹی آئی کے امریکا میں موجود حامیوں نے ٹرمپ کی مہم کے دوران فنڈز جمع کیے تھے اور یہ بات بھی بائیڈن انتظامیہ کو اچھی نہیں لگی تھی۔ سرکاری عہدیدار نے واشنگٹن میں اُس وقت پاکستانی سفیر اسد مجید کو بھی قصور وار قرار دیا کہ انہوں نے ڈونلڈ لوُ کے ساتھ بات چیت کا تجزیہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔

اس بات کو درست ثابت کرنے کیلئے سرکاری عہدیدار نے ایک اور ایسے ہی واقعے کا ذکر کیا جب عمران خان صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں واشنگٹن کے دورے پر گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو دیگر ملکوں سے بھی سفارتی دستاویز (سائیفر) موصول ہو چکے ہیں جو امریکی سائیفر کے مقابلے میں زیادہ سخت نوعیت کے تھے۔ ایسا ہی ایک سائیفر خلیجی ملک کی طرف سے اُس وقت بھیجا گیا تھا جب عمران خان نے اس ملک کے حکمران کیخلاف اچانک ہی بیان دیدیا۔

سرکاری عہدیدار نے ایک یورپی ملک کا بھی حوالہ دیا جس نے اسی طرح کا ایک مشاہدہ پیش کیا تھا۔

اس صورتحال کی روشنی میں، امریکا کے سفارتی سائیفر میں وہ بات نہیں تھی جو عوام کے سامنے پیش کرکے یہ تاثر دیا گیا کہ عدم اعتماد کی تحریک اس سائیفر کا نتیجہ ہے۔
عمر چیمہ: بشکریہ، دی نیوز
واپس کریں