دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کیا پی ٹی آئی تقسیم ہوچکی ہے؟
No image سابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف میں بھی پاکستان مسلم لیگ نون کی طرح مزاحتمی بیانیہ کے ساتھ مفاہمتی بیانیہ بھی جنم لینے لگا ہے، ایک بڑا دھڑا معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کا خواہاں ہے تو دوسری جانب عمران خان کی کور کمیٹی کے بعض ارکان عمران خان کے جاری بیانیہ کو ہی آگے بڑھانے کے خواہاں ہیں اور اس بیانیہ کی کامیابی کی دلیل جہاں ضمنی انتخابات میں کامیابیوں سے دی جارہی ہے تو وہیں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ریمارکس و دیگر ردعمل کو اس بیانیہ کی کامیابی کے طور پر پیش کی جارہی ہے-

پاکستان تحریک انصاف خصوصاً عمران خان کے انتہائی قریبی ذرائع سے جب استفسار کیا گیا تو انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ عمران خان نے جب سے جارحانہ رویہ اختیار کیا ہے اس وقت تک سے ہی مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے البتہ عمران خان کو ایک بڑا رنج صرف اپنی حکومت کے جانے کا نہیں جتنا سابق اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کا ہے کیونکہ ان کو انہی کے حوالےسے بتایا گیا تھا کہ یہ کرپٹ ترین ٹولہ ہے جس نے ملک کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے-

ذرائع کا مزید بتانا ہے کہ عمران خان کو اداروں پر تنقید سے روکنے کے لئے بھی پیغام بھجوایا گیا ہے جبکہ یہ اطلاعات بھی موصول ہورہی ہیں کہ سابق وزیر دفاع اور کچھ دیگر اہم رہنما جو معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کے خواہاں ہیں وہ چاہتے ہیں کہ عمران خان اداروں پر تنقید کی بجائے صرف اپنی توپوں کا رخ وفاقی حکومت تک رکھیں البتہ خان صاحب کے قریبی حلقے اسی بیانیہ کو برقرار رکھنے کے خواہاں ہیں کیونکہ اس سے پی ٹی آئی کو حال میں جہاں کئی کامیابیاں ملی ہیں وہیں وفاقی حکومت مسلسل دباؤ اور دفاعی پوزیشن پر ہے- ذرائع کا مزید بتانا ہے کہ مفاہمتی بیانیہ کے حامل پی ٹی آئی کا گروہ سمجھتا ہے کہ پی ٹی آئی کو حال میں تو کامیابی مل رہی ہے مگر مستقبل کو بھی محفوظ بنانا ضروری ہے تاکہ راستے کھلے رہیں-
سابق وزیراعظم جب انسداد دہشت گردی عدالت میں پیشی پر آئے تو ان سے سوالات پوچھے گئے مگر وہ مسلسل خاموش رہے ، ان سے پوچھا گیا کہ کیا اسٹیبلشمنٹ سے روابط ہوئے ۔؟ شہباز گل کی گرفتاری کے پیچھے کون ہے ۔؟کھیل کا مرکزی کردار کون ہے ۔؟ کیا امریکی سفیر سے رابطہ ہوا؟ آصف زرداری سے ملک ریاض کے ذریعے رابطہ ہوا۔؟ کیا آپ کو خاموش رہنے کا حکم آیا ہے ؟ آخری سوال پر صرف اتنا بولے "بہت خطرناک ہوں میں”-

پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما اور وفاقی وزیر رہنے والی شخصیت سے جب استفسار کیا گیا کہ کیا واقعی مذاکرات نہیں ہورہے اور مفاہمتی بیانیہ کی گنجائش نہیں بن رہی تو انہوں نے بھی بغیر شناخت ظاہر کئے کہا کہ مذاکرات کے راستے کب بند ہوتے ہیں مگر مفاہمت کے لیے گراؤنڈ چاہیے ہوتا ہے فی الحال ایسی صورت نہیں بن پائی، مفاہمت بھی کچھ دیکھ کی جاتی ہے- ذرائع کا مزید بتانا ہے کہ سابق وزرائے اعظم میاں نواز شریف ، یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کن عوامل پر ہوئی اور میاں نواز شریف کو پارٹی قیادت سے ہٹانے کی وجوہات کیا تھیں ان پر غور کیا گیا ہے، پی ٹی آئی کی اگلی حکمت عملی کیا ہوگی اس پر مزید مشاورت جاری رکھی جائیگی اور ستمبر کے پہلے ہفتے تک واضح ہوجائیگا کہ پی ٹی آئی مفاہمتی بیانیہ اپنائے گی یا پھر مزاحمتی بیانیہ کو آگے بڑھایا جائیگا-

دوسری جانب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کے عمران خان کے حوالے سے آنے والے ریمارکس کے بعد وفاقی حکومت اور اتحادیوں میں ہلچل مچ گئی ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے ادارے کے اہم ترین عہدیدار کے ریمارکس غیر معمولی ہیں کہ وہ ملک کے اندر کی سیاست پر انہوں نے کلمات ادا کئے ہیں، اسی کی بنیاد پر مولانا فضل الرحمان جوکہ امیر جمیعت علمائے اسلام کے ساتھ ساتھ پی ڈی ایم کی سربراہی بھی نبھا رہے ہیں۔

انہوں نے شدید ردعمل دیتے ہوئے اس بیان کو اپنے اس الزام کو ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے کہ ان کے مطابق عمران خان عالمی ایجنٹ ہیں جنہوں نے سلمان رشدی پر حملے کی جیسے ہی مذمت کی تو عالمی ادارے انکی پشت پناہی کے لئے آگے بڑھ آئے ہیں دوسری طرف عمران خان نے بھی اس بیان کا خیر مقدم اس طرح کیاکہ بولے ایک غیر سنجیدہ مقدمہ درج کرکے بین الاقوامی سطح پر ملک کی بدنامی کا سبب یہ حکومت بنی ہے- ذرائع کا مزید بتانا ہے کہ آنے والے دو ماہ ستمبر اور اکتوبر حکومت ، اپوزیشن خصوصاً پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کے حوالےسے انتہائی اہمیت کے حامل ہونگے-

بشکریہ: شفقنا نیوز
واپس کریں