دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عمران خان کو کب کب توہین عدالت کے نوٹس ملے ؟
No image یہ پہلی بار نہیں ہے کہ عمران خان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا گیا ہو۔نو برس قبل جولائی 2013 کو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے عمران خان کی جانب سے عدلیہ سے متعلق ’شرمناک‘ لفظ استعمال کرنے پر انہیں توہین عدالت کا نوٹس بھیجا تھا۔عمران خان اُن دنوں 2013 کے عام انتخابات میں دھاندلی سے متعلق چار حلقے کھلوانے کا مطالبہ کر رہے تھے اور انہوں نے اپنے ایک بیان میں الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کا کردار شرمناک ہے۔عمران خان کی جانب سے سپریم کورٹ میں حامد خان پیش ہوئے اور ابتدائی سماعت میں جواب جمع کروایا۔ تاہم ان کے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے جواب جمع کروانے کی مہلت دی تھی۔
اس توہین عدالت کے نوٹس سے متعلق اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا ’میں جیل جانے کے لیے تیار ہوں لیکن معافی نہیں مانگوں گا۔‘
سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے اپنے جواب میں عمران خان نے موقف اختیار کیا تھا کہ ’انہوں نے الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسروں کی کارکردگی پر تنقید کی تھی۔ ریٹرننگ افسران کے کام پر تبصرہ کرنے سے توہین عدالت لاگو نہیں ہوتی۔‘
انہوں نے ’شرمناک‘ کا لفظ پوری عدلیہ کے لیے نہیں بلکہ ریٹرننگ افسروں کے لیے استعمال کیا تھا۔عمران خان نے عدالت سے توہین عدالت کا نوٹس واپس لینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’انہوں نے عدالت کو کبھی سکینڈلائز کرنے یا کسی جج کی تضحیک یا توہین کی کوشش نہیں کی۔‘اس کیس میں اس وقت کے اٹارنی جنرل آف پاکستان نے عدالت میں بیان دیا تھا کہ ’اعلٰی عدالتوں پر خواہ کوئی بھی الزام عائد کرے، عوام اس پر یقین نہیں کریں گے۔ عدالت کی عظمت اور وقار عوام کی نظر میں ہے اور رہے گا۔اٹارنی جنرل کے بیان کے بعد سپریم کورٹ نے توہین عدالت کا نوٹس خارج کر دیا تھا۔

اس کے علاوہ سربراہ پی ٹی آئی کو الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی توہین عدالت کے نوٹسز جاری ہو چکے ہیں۔
تحریک انصاف کی لیگل ٹیم کے رکن فیصل چوہدری کے مطابق عمران خان کو 2013 کے بعد یہ دوسرا موقع ہے جب توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا گیا۔
انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’عدالت کی جانب سے توہین عدالت کا موجودہ نوٹس دوسرا نوٹس ہے۔ الیکشن کمیشن عدالت نہیں ایک کمیشن کی حیثیت رکھتا ہے اسے عدالتی نوٹس نہیں کہا جا سکتا۔‘
عمران خان کی جانب سے رواں برس 25 مئی کو لانگ مارچ کرنے پر بھی توہین عدالت نوٹس جاری کرنے کی درخواست دی گئی تھی۔
انہوں نے ایچ نائن کے بجائے بلیو ایریا میں 26 مئی کو جلسہ کیا اور لانگ مارچ ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔تاہم سپریم کورٹ نے حکومتی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے توہین عدالت کی کارروائی کرنے سے گریز کیا تھا۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے نوٹسز
عمران خان کو الیکشن کمیشن متعدد بار توہین عدالت کے نوٹس جاری کر چکا ہے۔
سنہ 2017 میں اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر سردار رضا محمد نے عمران خان کو توہین عدالت کا نوٹس بھجوایا تھا۔ عمران خان نے الیکشن کمیشن پر فارن فنڈنگ کیس سے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے الیکشن کمیشن پر ’جانبداری‘ کا الزام عائد کیا تھا۔
متعدد بار طلبی کے باجود عمران خان الیکشن کمیشن میں پیش نہ ہوئے اور کمیشن کے دائرہ کار کو چیلنج کیا۔ان کے وکیل کی جانب سے کمیشن میں معافی مانگی گئی تاہم کمیشن نے ذاتی حیثیت میں طلب ہونے کی ہدایت کی تھی۔
عمران خان کی عدم پیشی کے بعد الیکشن کمیشن نے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے تھے جسے اسلام آباد ہائی کورٹ میں بعدازاں چیلنج کر دیا گیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وارنٹ معطل کرتے ہوئے شوکاز نوٹس کا جواب جمع کروانے کی ہدایت کی تھی۔ جس کے بعد ان کے وکیل بابر اعوان نے الیکشن کمیشن میں معافی نامہ جمع کروایا اور بیان پر غیر مشروط معافی مانگ لی۔تاہم ان کے جمع کیے گئے جواب میں معافی کے بجائے پچھتاوے کا لفظ استعمال کیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ موجودہ چیف الیکشن کمیشن نے بھی عمران خان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر رکھا ہے۔ الیکشن کمیشن نے ’توہین آمیز‘ بیانات کا نوٹس لیتے ہوئے 30 اگست کو پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
توہین عدالت کے نوٹس کے علاوہ عمران خان کو اپنے بیانات کے باعث ہتک عزت کے دعووں کا بھی سامنا رہا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے ان پر ہتک عزت کا دعویٰ کر رکھا ہے جبکہ خواجہ آصف کی جانب سے بھی عمران خان پر ہتک عزت کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
عمران خان کے اپنے بیانات کے باعث سیاست سے قبل بھی مشکلات کا سامنا کرتے رہے ہیں۔ انہیں کرکٹ کے میدان میں انگلینڈ کے سابق کپتان آئن بوتھم ہتک عزت کا دعویٰ کرتے ہوئے لندن کی عدالت لے گئے جہاں عمران خان 1996 میں لندن کی عدالت سے بری ہوئے اور آئن بوتھم کو ہرجانہ ادا کرنا پڑا۔
واپس کریں