دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اور زنجیر کھینچ دی گئی
No image (تحریر ،خالد خان )بلوچستان کے بے آب و گیاہ اور سنگلاخ پہاڑوں کے بیچوں بیچ دوڑتی جعفر ایکسپریس کے انجن میں بیٹھا چوہدری امجد یاسین منج شاید یہ نہیں جانتا تھا کہ آج کا سفر اس کی زندگی کا آخری سفر ہوگا۔ وہ ہر روز سینکڑوں انسانوں کو منزل تک پہنچاتا، ان کے خوابوں اور امیدوں کو ایک سٹیشن سے دوسرے سٹیشن تک لیے چلتا، مگر آج اس کے اپنے خواب اور امیدیں ہمیشہ کے لیے بکھرنے والے تھے۔ آج اس کی زندگی کی زنجیر کھینچنے والی تھی۔ آج درندے معصومیت کو ہڑپ کرنے کا قصد کر چکے تھے۔
قصور کی تحصیل چونیاں کے ایک چھوٹے سے گاؤں چک 17 کا یہ بیٹا، جو چھانگا مانگا کے سبز جنگلوں کے قریب پلا بڑھا تھا، اپنے اہلِ خانہ کا سہارا تھا۔ وہ زندگی کی پٹری پر فرض نبھانے والا وہ خاموش ہیرو تھا، جس کا کوئی مجسمہ کبھی نہیں بنایا جائے گا، کوئی کتاب اس کے نام سے نہیں لکھی جائے گی، مگر اس کے بچے، اس کی بیوی، اس کے عزیز و اقارب اسے ہمیشہ یاد رکھیں گے—کیونکہ وہ محض ایک ٹرین ڈرائیور نہیں تھا، وہ ایک محبت کرنے والا باپ، ایک وفادار شوہر، اور ایک خواب دیکھنے والا انسان تھا، جو اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے ہر روز زندگی اور موت کے درمیان دوڑ لگاتا تھا۔
عید کے دو دن بعد اس نے چھانگا مانگا میں اپنی سالی کی شادی میں شرکت کرنی تھی۔ بچوں نے نئے کپڑے سلوائے تھے، خوشی کی چمک ان کی آنکھوں میں تھی، اور بیوی نے مہمانوں کی تواضع کے لیے پکوانوں کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ مگر زندگی کی سفاکی دیکھو، وہ خوشیوں کے ان وعدوں کو پورا کرنے کے بجائے خون میں نہا گیا۔ بولان کے بے رحم دہشت گردوں نے وہ ہاتھ ہمیشہ کے لیے روک دیے جو بچوں کے سروں پر شفقت سے پھرتے تھے، جو ریلوے کے لیور سنبھال کر ٹرینوں کو ان کی منزل تک لے جاتے تھے۔
ٹرین کی پٹریوں پر خون بکھر گیا۔ ایک طرف بے رحم گولیوں کی آوازیں تھیں، دوسری طرف مسافروں کی چیخیں۔ عورتیں بچوں کو سینے سے لگائے رو رہی تھیں، بوڑھے لرزتے ہاتھوں سے زندگی کی آخری دعائیں مانگ رہے تھے، اور وہ جو مسافروں کو منزلوں تک پہنچاتا تھا، خود ایک ایسی منزل پر پہنچ چکا تھا جہاں سے کوئی واپسی نہیں ہوتی۔
یہ سانحہ محض ایک ٹرین حملہ نہیں، بلکہ انسانیت کی روح پر کیا گیا ایک وار ہے۔ کیا ان دہشت گردوں نے کبھی سوچا کہ اس ٹرین میں کون تھا؟ معصوم بچے، جو اسکول کے امتحان دے کر اپنے نانا کے گھر جا رہے تھے؟ وہ مائیں، جو بیٹوں کی شادیوں کے خواب آنکھوں میں بسائے سفر کر رہی تھیں؟ وہ مزدور، جو ایک شہر سے دوسرے شہر صرف دو وقت کی روٹی کے لیے جا رہے تھے؟ کیا یہ سب دشمن تھے؟ اگر نہیں، تو پھر کس جرم کی سزا دی گئی؟
دہشت گردی کی یہ خون آشام کہانی کب ختم ہوگی؟ ہر بار جب ایک دھماکا ہوتا ہے، ہر بار جب ایک گولی کسی بے گناہ کا سینہ چیر دیتی ہے، تو ہم مذمتی بیانات دے کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ مگر یہ خاموشی ہمیں مزید جنازوں کی طرف لے جا رہی ہے۔ دہشت گردوں کو معلوم ہے کہ ان کے ہر حملے کے بعد ریاستی ردِ عمل صرف چند دنوں کا ہوتا ہے، پھر سب کچھ معمول پر آ جاتا ہے، یہاں تک کہ اگلا جنازہ اٹھایا جائے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اپنے شہیدوں کے خون کا قرض چکائیں۔ ہمیں ان دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو ہمیشہ کے لیے مٹی میں دفن کرنا ہوگا۔ ہمیں ان پناہ گاہوں کو نیست و نابود کرنا ہوگا جہاں یہ درندے پلتے ہیں۔ ہمیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ چوہدری امجد یاسین منج جیسے محنت کشوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا، کہ یہ ریاست اپنے ہر شہری کی حفاظت کرے گی، اور کہ پاکستان کے دشمنوں کے لیے اس زمین پر کوئی جگہ نہیں۔
چوہدری امجد کے بچے اب دروازے کی طرف دیکھتے رہیں گے، شاید ان کے معصوم ذہن کو ابھی تک یقین نہ آئے کہ ان کا باپ کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا۔ بیوی اس بستر کو خالی دیکھے گی جہاں وہ تھکے ہارے آ کر لیٹتا تھا، ماں اس پرانے جوتے کو سینے سے لگا کر روئے گی جس میں اس کے بیٹے کی خوشبو بسی تھی۔ مگر کیا ریاست کو اس کی فکر ہے؟ کیا ہمیں اس کا احساس ہے؟ یا ہم صرف ایک اور خبر پڑھ کر آگے بڑھ جائیں گے؟
ہمیں اب صرف رونے یا مذمت کرنے سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہ جنگ ہماری بقا کی جنگ ہے، اور اگر ہم نے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی نہ کی، تو کل کوئی اور چوہدری امجد یاسین منج کسی اور ٹرین میں اپنے فرض کی پٹری پر گرتا نظر آئے گا، اور ہم پھر ایک اور تعزیتی بیان دے کر خاموش ہو جائیں گے۔
واپس کریں