دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
خیبرپختونخوا میں دہشتگردوں کا نیا گٹھ جوڑ: پس پردہ کھیل کون کھیل رہا ہے؟خالد خان
No image پاکستان کی سرزمین پر ایک بار پھر وہی پرانے سائے منڈلا رہے ہیں، مگر اس بار کہانی میں کچھ نئے کردار اور کچھ حیرت انگیز اتحاد سامنے آئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، چھ سے زائد دہشتگرد گروہ خیبرپختونخوا میں حملوں کے لیے متحد ہو چکے ہیں، اور اس اتحاد نے صوبے کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اپنی کارروائیوں کا منصوبہ ترتیب دیا ہے۔ القاعدہ، داعش اور الیاس کشمیری گروپ بھی ایک عرصے بعد دوبارہ سرگرم ہو چکے ہیں۔ یہ وہی گروہ ہیں جو کبھی نظریاتی طور پر ایک دوسرے کے خلاف صف آراء تھے، مگر آج پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پشاور، خیبر، مہمند اور باجوڑ کے علاقوں میں نور ولی محسود گروپ کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے، جسے لشکر اسلام اور جماعت الاحرار کی مدد حاصل ہوگی۔ دوسری طرف کرم، شمالی اور جنوبی وزیرستان سمیت جنوبی اضلاع کی کارروائیوں کی ذمہ داری حافظ گل بہادر گروپ کو سونپی گئی ہے۔ داعش اور القاعدہ جیسے عالمی شدت پسند نیٹ ورکس بھی ان کارروائیوں میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ دونوں تنظیمیں نظریاتی طور پر ایک دوسرے کے سخت مخالف رہی ہیں، مگر اب پاکستان میں حملے کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ کھڑی ہیں۔ اس نئے "فارمولے" کو ممکن بنانے میں حافظ گل بہادر گروپ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
ادھر، اسلام آباد میں ہونے والے کچھ حالیہ واقعات بھی اس پس منظر میں معنی خیز نظر آتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایک مذہبی مدرسے کے خلاف وفاقی اداروں کی کارروائی نے شدت پسند گروہوں کو مزید متحرک کر دیا ہے۔ اس ساری صورتِ حال کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کو بدترین سیکیورٹی خدشات لاحق ہو چکے ہیں، اور ایک طویل عرصے بعد غیر پشتون شدت پسند گروہ بھی ایک بار پھر میدان میں آ چکے ہیں۔
اسی دوران، وزارت داخلہ کی جانب سے سات مارچ کو اعلان کیا گیا کہ تمام غیر قانونی غیر ملکیوں، بالخصوص افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والوں، کو اکتیس مارچ تک ملک چھوڑنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ بصورت دیگر، یکم اپریل سے ان کی ملک بدری کا آغاز کر دیا جائے گا۔ دستاویزات کے مطابق، اسلام آباد اور راولپنڈی میں مقیم افغان شہریوں کو نکالنے کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں، جبکہ دوسرے مرحلے میں آٹھ لاکھ افغان شہریوں کو واپس افغانستان بھیجا جائے گا۔ اقوامِ متحدہ کے اداروں کے مطابق، دو ہزار تیئس سے لے کر اب تک آٹھ لاکھ سے زائد افغان مہاجرین واپس جا چکے ہیں۔
پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کی مجموعی تعداد لگ بھگ اٹھائیس لاکھ ہے، جن میں سے تیرہ لاکھ افراد کے پاس پروف آف رجسٹریشن (PoR) کارڈ موجود ہیں۔ حکومت نے PoR کارڈ رکھنے والے افغان شہریوں کو جون دو ہزار پچیس تک پاکستان میں رہنے کی اجازت دی ہے، مگر غیر قانونی مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ ان اقدامات کا مقصد سیکیورٹی کو بہتر بنانا اور غیر قانونی طور پر مقیم افراد کی تعداد کو کم کرنا ہے۔
یہ صورتحال صرف داخلی سطح پر نہیں، بلکہ عالمی سطح پر بھی خطرناک پہلو اختیار کر چکی ہے۔ سابق سی آئی اے افسر سارہ ایڈمز کے انکشافات نے ایک نیا محاذ کھول دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ افغان طالبان اور داعش کے درمیان خفیہ اتحاد بے نقاب ہو چکا ہے۔ ان کے مطابق، افغان طالبان ہمیشہ سے داعش کے دہشتگردوں کو سہولت فراہم کرتے رہے ہیں۔ یہ وہی طالبان ہیں جنہوں نے دنیا کے سامنے خود کو تبدیل شدہ چہرے کے ساتھ پیش کیا، مگر درحقیقت وہ آج بھی دہشتگردوں کے سرپرست ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نئے دہشتگرد نیٹ ورک کے پیچھے اصل قوتیں کون سی ہیں؟ کون ان گروہوں کو وسائل، حکمتِ عملی اور پناہ گاہیں فراہم کر رہا ہے؟ اور سب سے اہم سوال، پاکستان ان خطرات سے کیسے نمٹے گا؟ خیبرپختونخوا ایک بار پھر آگ کی لپیٹ میں ہے، اور دشمن کی صف بندی پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہو چکی ہے۔ ان حالات میں، سیکیورٹی اداروں کی حکمتِ عملی اور سیاسی قیادت کے فیصلے پاکستان کے مستقبل کا تعین کریں گے۔
واپس کریں