دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ایک اور مہنگائی بم۔عوام ہوشیار باش
No image پی ڈی ایم حکومت قومی معیشت کو دیوالیہ پن سے نکالنے کےلئے چار ماہ سے کوششوں میں مصروف ہے۔ جس میں اسے ڈالر کی قدر میں ہوشربا اضافے کے چیلنج کا سامنا رہا ۔ برآمدات میں غیر معمولی کمی اور درآمدات کا اسی قدر معیشت پر دباؤ ، پیٹرولیم مصنوعات کی طلب میں اضافہ اور عالمی مارکیٹ میں اسکی قیمتوں کا بلند ہونا ، یہ سب عوامل زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا باعث بنے جو گرتے گرتےجولائی میں 8.38ارب ڈالر کی سطح پر آگئے۔ اس دوران چین سے 2.3ارب ڈالر قرضے کی سہولت میسر آئی تاہم آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج میں سے ایک ارب 17کروڑ ڈالر قسط کا حصول حکومت کے لئے چیلنج بنا ہوا ہے اور اس ادارے کے شدید دباؤ پر پیٹرول کی قیمتیں مجموعی طور پر84روپے فی لیٹر اور بجلی کے نرخ7.91روپے فی یونٹ بڑھانے پڑے جس سے معاشی طور پر کمزور طبقے کےلئے زندہ رہنا مشکل ہوگیا پھر بھی آئی ایم ایف نے حکومت پر 80 ارب روپے کے مزید محاصل اکٹھا کرنے کا دباؤ ڈالا ہوا ہے۔ چند روز قبل ریٹیلرز سے بجلی کے بلوں کی صورت میں 42 ارب روپے وصول کرنےکا قدم اٹھایا گیا لیکن تاجر طبقے کی شدید مزاحمت کے بعد یہ فیصلہ واپس لینا پڑا اور اب آئی ایم ایف کی شرط پوری کرنے کےلئے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے آرڈیننس کے ذریعے منی بجٹ کی شکل میں مزید ٹیکس عائد کرنے کا پروگرام پیش کیا ہے جس کی رو سے پرتعیش اشیا کی درآمد پر پابندی ختم کرکے ان پر 20ارب روپے کی ریگولیٹری ڈیوٹی عائد ہوگی، تمباکو اور سگریٹ پر 36 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگیں گے ، ریٹیلرز پر 42ارب کی بجائے 27ارب روپے کے ٹیکس لگائے جائیں گے اور ان کی وصولی یکم جولائی سے 30ستمبر کے دوران بجلی کے بلوں میں شامل کی جائے گی۔

یکم اکتوبر سے 50 یونٹ سے زیادہ حیثیت کے حامل بلوں پر پانچ اور سات فیصد کی شرح سے بالترتیب سیلز اور انکم ٹیکس وصول کیا جائیگا جبکہ ایک ہزار یونٹ پر ساڑھے بارہ اور اس سے زائد پر 20فیصد سیلز ٹیکس عائد ہوگا۔ گاڑیوں، موبائل فون اور پرتعیش اشیا پر 20ارب روپے تک کسٹم ریگولیٹری ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس نافذ ہوگا۔ وزیر خزانہ کے مطابق پرتعیش اشیا پر سے پابندی آئی ایم ایف کے مطالبے پر ہٹائی جارہی ہے ، بتایا گیا ہے کہ تجارت کے عالمی ادارے کے قواعدوضوابط کی رو سے کسی رکن ملک کو در آمدات پر تین ماہ سے زیاہ پابندی عائد کرنے کی اجازت نہیں تاہم برآمدات کے مقابلے میں درآمدات کا غیر معمولی حجم بے اثر کرنے کے لئے منی بجٹ میں متذکرہ محصولات عائد کرنے کی تجویز ہے ۔

ان حکومتی اقدامات کے مدمقابل زرعی اور فارماسوٹیکل کے شعبوں کو ٹیکسوں میں کمی کی صورت میں ریلیف دیا جارہا ہے۔ ان کا غریب طبقے سے با لواسطہ یا براہ راست تعلق ہے اور بعض زرعی آلات پر ٹیکس ختم کردینے سے کاشتکاروں پر مالی اخراجات کا بوجھ کم ہوسکے گا جبکہ ادویات کے خام مال کی درآمد اور مقامی سپلائی پر عائد ایک فیصد سیلز ٹیکس کی چھوٹ کا فائدہ بھی غریب اور متوسط لوگوں کو ملنا چاہئے۔منی بجٹ کے بعد حکومت آئی ایم ایف سے ایک ارب 17 کروڑ ڈالر ملنے کے بارے میں مطمئن دکھائی دیتی ہے ۔ وفاقی وزیر خزانہ نے خوشخبری دی ہے کہ گذشتہ دو ماہ کے دوران برآمدات میں 8فیصد اضافہ اور درآمدات میں19فیصد کمی سے تجارتی خسارہ 30فیصد کم ہوا ہے جس سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی حیثیت مستحکم ہورہی ہے ۔ اگرچہ ان اقدامات سے ایک ارب 17روڑ ڈالر آنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے تاہم اس سے کمر توڑ مہنگائی کی صورتحال مزید ابتر ہوتی دکھائی دے رہی ہے ۔ اب دال روٹی اور سبزی ترکاری کا حصول بھی غریب کی دسترس میں نہیں۔ اس ضمن میں حکومت کو اور نہیں تو روزمرہ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم کرنے کے اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ غریب کے گھر کا چولھا جلتا رہے۔
بشکریہ:جنگ
واپس کریں